عالمی حكومت، جہاد ميں كم سے كم حربی قوت

15

سوال

جاويد احمد غامدی صاحب نے ايك ٹی وی پروگرام ميں فرمايا: اب انسان اس بات كا حق ركھتا ہے كہ وہ ايك عالمی حكومت كا خواب ديكھے۔

اس بات نے ميرے ذہن ميں بہت الجھن پيدا كر دی ہے ۔ ميں اس بات كو پوری طرح سمجھنا چاہتا ہوں۔ وضاحت فرمائيے۔

ميرا دوسرا سوال يہ ہے كہ كچھ لوگ چند روايات نقل كرتے ہوئے يہ نقطہ نظر اختيار كرتے ہيں كہ اگر خالد بن وليد رضی الله تعالی چند نفوس كو لے كر ساٹھ ہزار پر مشتمل ايك طاقتور فوج كو شكست دے سكتے ہيں تو پھر اس قرآنی آيت كا كيا مطلب ہے جو غامدی صاحب كے مطابق اس بات كو لازم قرار ديتی ہے كہ مسلمانوں كو اس وقت تك جنگ نہيں كرنا چاہيے جب تك ان كی حربی قوت دشمن كی حربی قوت كے كم از كم نصف برابر نہ ہو؟

جواب

آپ کے سوالات کے جواب حسب ذیل ہيں۔

١) آپ نے جاوید صاحب کی جس وڈیو کا حوالہ دیا ہے اس میں جاوید صاحب کا جملہ یہ ہے:

”میرا احساس یہ ہے کہ اب بھی دنیا کو یہ خواب دیکھنے کا حق ہے کہ ایک عالمی حکومت کی طرف ہم بڑھیں، جس میں انسان کی فلاح، انسان کی رفاہیت، غربت کے خلاف جنگ، جہالت کے خلاف جنگ ہمارا مطمح نظر ہو”۔

اس جملے سے محسوس یہ ہوتا ہے کہ جاوید صاحب کا مدعا یہ ہے کہ انسانیت اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود کچھ ایسی اقدار پر متفق ہوجائے، جو عالمی نوعیت کی ہوں اور جن کی بنیاد پر انسان کی عمومی فلاح و بہبود کے کام کرنا ممکن ہوجائے۔ جس سیاق میں جاوید صاحب بات کررہے ہیں اس سے محسوس یہ ہوتا ہے کہ اس حکومت سے مراد کوئی سیاسی حکومت ہرگز نہیں ہے، بلکہ سرماےہ دارانہ نظام کی خاميوں کو مارکس نے جس طرح متوازن بنانے کی کوشش کی ہے، اس کے حوالے سے محسوس ہوتا ہے کہ ان کی مرادانسانيت کی اجتماعی دانش کو بروئے کار لاکر ايک متوازن نظام کی طرف پيش قدمی ہے جس کی بنيادی اساس انسانيت کی فلاح ہو۔

٢)ہمارے ہاں عام طور پر یہ رواج ہے کہ قرآن کریم کو صحیح، ضعیف اور موضوع روایات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں اسی نوعیت کے سوالات پیدا ہوجاتے ہیں جن میں سے ایک کاذکر، حضرت خالد بن ولید کے حوالے سے ایک تاریخی روایت نقل کرکے آپ نے کیا ہے۔ جب یہ روایات قرآنی بیان کی تائید نہیں کرتیں، تو لوگ ایک نوعیت کے کنفیوژن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ قرآن فہمی کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ روایات و آثار کو قرآن مجید کی روشنی میں سمجھا جائے۔

اس اصولی بات کے بعد اب آئیے اس روایت کی طرف جسے آپ نے نقل کیا ہے۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ ایک تاریخی روایت ہے۔ اور اس کا اپنا متن ہی پکار کر کہہ رہا ہے کہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس بات سے تو سب واقف ہیں کہ جنگِ موتہ میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً تین ہزار تھی۔ جبکہ رومی لشکر کی تعداد کا اندازہ ایک لاکھ تک لگایا گیا ہے۔ ایک اور تینتیس کے اس تناسب میں حضرت خالد کا سب سے بڑا کارنامہ یہ سمجھا گیا کہ وہ اپنے لشکر کو بچا کر کامیابی سے واپس مدینہ لے آئے۔ جبکہ جو تناسب آپ بتا رہے ہیں۔ وہ ایک اور چھ ہزار کا ہے۔ یہ اگر فتح کے حصول کے لیے کوئی کافی تناسب ہوتا تو جنگ موتہ میں وہ صورتحال پیش نہ آتی جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔ مسلمانوں کے تین عظیم سپہ سالاروں کی شہادت کے بعد حضرت خالد اس طریقے سے پسپا ہوئے کہ دشمن کو تعاقب کا حوصلہ تک نہ ہوسکا اور اس کے دل پر مسلمانوں کی دہشت چھاگئی۔يہی ان کا اصل کارنامہ تھا جس پر وہ سيف اللہ کے عظيم خطاب کے حقدار ٹھہرے۔ اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایک اور چھ ہزار کے تناسب سے دشمن پر فتح حاصل کرنے کی بات نہ صرف قرآن کے خلاف ہے بلکہ عقل عام اور دیگر مصدقہ تاریخی روایات کے بھی خلاف ہے۔

مجیب: Rehan Ahmed Yusufi

اشاعت اول: 2016-01-04

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading