ایک ہی موقع پر تین طلاقیں

20

سوال

میرے شوہر نے مجھے پاکی کی حالت میں تین بار غصے سے طلاق دی ہے ۔ کیا یہ طلاق نافذ ہوجائے گی ؟

جواب

اسلام کا قانونِ طلاق قرآن مجید میں پوری تفصیل سے بیان ہوا ہے ۔چنانچہ اِس باب میں اب وہی مسلمانوں کے لیے ایک واجب الاتباع شریعت ِخداوندی کی حیثیت رکھتا ہے ۔ جوشخص قرآن کے اُس قانون ِطلاق کے عین مطابق اپنی بیوی کو طلاق دیگا تو وہ طلاق اُسی قانون کے مطابق واقع ہوجائے گی ۔ اِس کے لیے کسی عالم یا قاضی سے رجوع کرنے کی ضرورت بھی نہ ہوگی ۔ تاہم کوئی شخص،جیساکہ مذکورہ بالا سوال میں بھی یہی صورت بالکل واضح ہے، جب شریعت کے بتائے ہوئے قرآنی طریقے کے مطابق طلاق نہیں دیتا،بلکہ اپنے طریقے سے،اپنے ناقص دینی علم کی بنیاد پر اور علاقائی طور پر اپنے ہاں رائج طریقۂ طلاق کو اختیار کرکے طلاق دیتا ہے تو بالبداہت واضح ہے کہ یہ طلاق کے معاملے میں شریعتِ اسلامی کی خلاف ورزی ہے ۔چنانچہ ایسی صورت میں طلاق آپ سے آپ تو قطعا واقع نہیں ہوتی ،بلکہ یہ قضیہ بجائے خود قابل تحقیق ہوجاتا ہے کہ قرآن کے قانون ِطلاق کی روشنی میں آیا یہ طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟اگر ہوئی ہے تو کیا اِسے ایک طلاق شمار کیا جائے گا کہ جس میں شوہر کے لیے رجوع کا امکان موجود ہوتا ہے، یا پھر یہ تین طلاقیں شمار ہوں گی ؟ ایسی صورت میں ہمارے نزدیک دو ہی راستے ایک مسلمان کے لیے باقی رہ جاتے ہیں ۔ایک یہ کہ وہ عدالت کی طرف رجوع کرکے اپنے معاملے میں کوئی حتمی قانونی فیصلہ حاصل کرکے اُس کے مطابق عمل کرے ۔ دوسرے یہ کہ وہ اپنا معاملہ عدالت میں لےجانے کے بجائے علمائے شریعت میں سے کسی صاحب علم کی طرف رجوع کرے۔ اور اپنے معاملے کی تمام تر تفصیلات کو من وعن بیان کرکے یہ بات جاننے کی کوشش کرے کہ شریعت کے قانون ِطلاق کی روشنی میں اُس کی دی ہوئی طلاق کی کیا حیثیت ہے ؟ اہل علم کے مابین اگر اختلاف نظر آئے تو اُس نقطۂ نظر کو اختیار کرے جوقرآن وحدیث کے مظبوط دلائل پر قائم ہو۔ مختصرتحریری سوال کی روشنی میں طلاق کے معاملے میں کوئی حتمی رائے دینا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے ۔

مجیب: Muhammad Amir Gazdar

اشاعت اول: 2015-10-18

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading