با وضو شخص کا دوبارہ وضو کرنا اور اس کی دینی حیثیت

18

سوال

میں ایک سوال عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر انسان کا وضو قائم ہو اور وہ نماز کے لیے دوبارہ وضو کر لے تو کیا یہ بدعت ہو گی؟ برائے مہربانی تاریخ کا کوئی حوالہ دیں؟

جواب

آدمی اگر چاہے تو بلا شبہ ایک ہی وضو سے متعدد نمازیں ادا کرسکتا ہے۔ تاہم روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس باب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ یہ تھا کہ بالعموم آپ ہر فرض نماز کے موقع پر نیا وضو کیا کرتے تھے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ایک باوضو شخص کے لیے تجدیدِ وضو کو بشمول ائمۂ اربعہ کے اکثر فقہا نے بعض شرائط کے ساتھ ایک پسندیدہ اور مستحب عمل قرار دیا ہے۔

اِمام احمد بن حنبل سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ تجدیدِ وضو کی کوئی فضیلت نہیں ہے۔ لیکن علماے حنابلہ، امام احمد کی اُسی روایت کو زیادہ مستند قرار دیتے ہیں جو جمہور کے موافق ہے۔

دین میں اِس عمل کے استحباب کے لیے فقہا نے جو بعض شرائط بیان کی ہیں اُن کے حوالے سے اِن کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے۔ علماے شافعیہ کے نزدیک وضو پر نیا وضو کرنا اِس شرط کے ساتھ پسندیدہ ہے کہ پہلے وضو سے آدمی نے کم از کم دو رکعت نماز، خواہ نفل ہو یا فرض، پڑھی ہو۔

احناف نے یہ شرط عائد کی ہے کہ پہلے اور دوسرے وضو کے مابین ایک نشست یا ایک نماز ضرور ہونی چاہیے، اگر ایسا نہیں ہے تو اُس صورت میں نیا وضو کرنا نا پسندیدہ اور مکروہ ہے۔

مالکیہ کا کہنا ہے کہ دونوں کے مابین کسی ایسی عبادت کا ہونا ضروری جس کی صحت کے لیے وضو کا ہونا شرط ہے۔ جیسے نماز، طواف بیت اللہ یا مصحف قرآنی سے تلاوت کرنا وغیرہ۔

امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ وضو کرنے کے بعد اگر آدمی نے ابھی تک کوئی نماز نہیں پڑھی ہے تو اِس صورت میں اُس کے لیے نیا وضو کرنا، نہ صرف یہ کہ کوئی پسندیدہ عمل نہیں ہے، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ اور عہد نبوی سے آج تک کے مسلمانوں کے عمومی طریقۂ عمل سے مخالف ہونے کی وجہ سے ایسا کرنا ‘بدعت’ ہے۔ (مجموع الفتاوی 376/21(

غرضیکہ فقہا کے نزدیک بغیر کسی سبب کے وضو پر وضو کرنا دین میں علی الاطلاق کوئی مندوب اور مشروع عمل نہیں ہے۔

ہر نماز کے موقع پر نیا وضو کرنے کے استحباب پر اہل علم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی مندرجہ ذیل بعض احادیث سے استدلال کیا ہے:

1۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے موقع پر(نیا) وضو کیا کرتے تھے۔ میں (عمرو بن عامر) نے کہا: اِس معاملے میں آپ (صحابہ) کا کیا طریقہ تھا ؟ اِس پر حضرت انس نے فرمایا: ہمارا معاملہ تو یہ تھا کہ ہم میں سے کسی شخص کا جب تک وضو ٹوٹ نہ جاتا، اُسے ایک ہی وضو کفایت کرتا تھا۔ سنن ترمذی کے الفاظ ہیں کہ:

جب تک ہمارا وضو نہ ٹوٹتا، ہم تمام نمازیں ایک ہی وضو سے پڑھا کرتے تھے۔ (بخاری، رقم214۔ البانی،صحیح الترمذی،رقم60(

2۔ حضرت بریدہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ تھا کہ آپ ہر نماز کے لیے(نیا) وضو کیا کرتے تھے، لیکن (ہم نے دیکھا کہ) فتح مکہ کے موقع پر آپ نے تمام نمازیں ایک ہی وضو سے ادا فرمائیں اور موزوں پر مسح کیا۔ اِس پر سیدنا عمر نے آپ سے عرض کیا: آج آپ نے وہ کام کیا ہے جو آپ کبھی نہیں کیا کرتے تھے!۔ اس پر آپ نے فرمایا: اے عمر ! میں نے ایسا جان بوجھ کر کیا ہے۔(البانی،صحیح النسائی،رقم 133۔ صحیح الترمذی، رقم 61۔ دارمی، رقم 659(

3۔ سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اپنی امت کو تکلیف اور مشقت میں ڈالنے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں اُنہیں ہر نماز کے موقع پر وضو اور ہر وضو کے موقع پر دانتوں کی صفائی کا ضرور حکم دیتا۔ اور نمازِ عشا کو میں آدھی رات تک مؤخر کردیتا۔ (طیالسی، رقم 2448(

پھر اِس باب میں مندرجہ ذیل بعض فضائل کی ایسی روایات بھی موجود ہیں جن کی نسبت علماے حدیث کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعاً ثابت نہیں ہے۔ چنانچہ آپ کی نسبت سے اِن کو بیان کیا جاسکتا ہے، نہ اِن سے کوئی دینی حکم ہی ثابت ہوتا ہے۔ وہ روایات یہ ہیں:

1۔ جس نے پاکیزگی کی حالت میں وضو کیا، اللہ تعالیٰ اُس کے لیے دس نیکیاں لکھتے ہیں۔ یہ ایک ضعیف روایت ہے۔ (البانی، ضعیف ابی داود، رقم 62۔ البانی، ضعیف ترمذی، رقم 59(۔

2۔ وضو پر وضو کرنا (گویا) روشنی پر روشنی ہے۔ یہ ایک من گھڑت اور بے بنیاد روایت ہے۔ (ملا علی قاری، الاسرار المرفوعہ فی الاخبار الموضوعۃ، رقم 361۔ البانی، ضعیف الترغیب والترھیب، رقم 140(

مجیب: Muhammad Amir Gazdar

اشاعت اول: 2015-10-18

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading