سوال
کیا نبی ؐ کی قبر کی زیارت واجب ہے؟ کیا وہ زمین جس سے نبی ؐ کے جسم کا حصہ لگا ہو وہ کعبہ اور عرش وسامہ سے بہتر ہے؟ کیا نبی ؐ مدینہ والی قبر میں زندہ ہیں اور اس کی زندگی دنیا والی زندگی کی طرح ہے؟ کیا مسجد نبوی میں دعا کرتے وقت محمد ؐ کی قبر کی طرف منہ کرنا چاہیے اور کعبہ کی طرف منہ نہیں ہونا چاہیے؟ یہ سب باتیں میں نے مولویوں سے سنی ہیں لیکن میرا دل قران کی سے تھوڑی بہت واقفیت ہونے کی وجہ سے نہیں مانتا۔ آپ قران اور حدیث کی روشنی میں جواب دے دیجیے اور غامدی صاحب کا موقف بھی بیان کیجیے۔
جواب
آپ کے سوالات کے جواب درج ذیل ہیں:١) مدینہ طیبہ جانے کے لیے درست طریقہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد، مسجدِ نبوی میں نماز ادا کرنے کی نیت ہی کی جائے۔ جس کی ایک نماز کا اجر ہزار نماز کے برابر کیا گیا ہے،(بخاری رقم:1190)۔ایک اور حدیث میں بیان ہوا ہے کہ تین مساجد کے سوا کسی اور مقام کی طرف زیارت کے لیے سفر نہ کیا جائے۔یعنی مسجد حرام ، میری مسجد(یعنی مسجد نبوی) اور مسجد اقصی،(بخاری1189)۔ تاہم یہاں یہ وضاحت بے جا نہ ہوگی کہ یہ بات فطری ہے کہ اپنے وطن کو چھوڑ کر ہزاروں میل دور جانے والا شخص پیغمبر اسلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت کرے جو مسجدِ نبوی کے اندر ہی ہے۔اس بات کی مزید وضاحت بخاری ، مسلم اور موطا کی ا ن رویات سے ہوتی ہے جس کے مطابق رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے اپنی وفات سے قبل اپنے آخری خطبے میں لوگوں کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ تم لوگ میری قبر کو بت نہ بنانا کہ اس کی پوجا کی جائے۔مزید فرمایا کہ یہود و نصاریٰ پر اللہ کی لعنت کہ انہوں نے اپنے انبیا کی قبروں کو سجدہ گاہ بنادیا۔اس سے واضح ہے کہ قبر نبی کہ حوالے سے اصل ممانعت کسی بھی قسم کے مشرکانہ عمل کی ہے۔ مسجد نبوی آنے کے بعد اس کی زیارت کی ممانعت کی کوئی دلیل ہم نہیں پاتے۔٢) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت دین کی کسی نص کی رو سے واجب نہیں ہے۔٣) یہ تیسری بات جو آپ نے بیان کی ہے، اس کی کوئی دلیل قرآنِ مجید یا کسی صحیح حدیث میں موجود نہیں ہے۔٤) یہ بات قرآنِ کریم اور صحیح احادیث سے واضح ہے کہ مرنے کے بعد صالحین کو ایک نوعیت کی زندگی حاصل ہوتی ہے۔ انبیا کا درجہ صالحین میں چونکہ سب سے بلند ہے اس لیے انہیں بھی یہ زندگی حاصل ہوگی جہاں وہ اللہ تعالیٰ کے انعامات اور اس کی رحمتوں سے مستفید ہورہے ہوں گے۔ لیکن یہ سمجھنا کہ یہ زندگی اس قبر کے اندر حاصل ہوتی ہے جو ہمیں آنکھوں سے نظر آرہی ہوتی ہے، ٹھیک نہیں ہے۔ یہ چیزیں امورِ متشابھات کے ذیل کی ہیں جن کی حقیقت ہم اس وقت پوری طرح سمجھنے سے قاصر ہیں۔٥) دعا تو انسان جس طرف رُخ کرکے چاہے مانگ سکتا ہے۔ اس کے لیے کسی خاص سمت کی کوئی قید اور پابندی نہیں ہے۔ لیکن مسجدِ نبوی میں بیٹھ کر مواجہ شریف کی طرف رُخ کرکے دعا مانگی جائے گی تو دیکھنے والے یہ سمجھیں گے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا مانگی جارہی ہے۔ جبکہ یہ عام معلوم بات ہے کہ اللہ کے سوا نہ کسی سے مدد مانگی جاسکتی ہے اور نہ دعا کی جاسکتی ہے۔ اس لیے اس وقت یہی مناسب ہے کہ قبلے کی طرف رُخ کرکے دعا مانگی جائے۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2015-11-19