سوال
میں قرآن مجید کی ایک آیت کے حوالے سے ایک سوال عرض کرنا چاہتا ہوں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ سورہ ممتحنہ کی پہلی آیت میں فرماتا ہے،جس کا مفہوم میری سمجھ میں یہ آیا ہے کہ ‘اے ایمان والو مت دوست بناؤ میرے اور اپنے دشمنوں کو’ میرے خیال میں یہاں اللہ تعالیٰ کی دشمنوں سے مراد غیر مسلم ہیں۔ جو اسلام کے دشمن ہیں” تو میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ پھر موجودہ دور میں ایک مسلم کی کسی ہندو، یہودی اور عیسائی کے ساتھ دوستی کی کوئی ممانعت نہیں ھے۔ گویا قرآن کی اس آٓیت کو بالکل رد کیا جا رہا ہے۔ بہت سے علما کرام کے دوستوں میں بھی کچھ غیر مسلم ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک کے غیر مسلم ممالک کے
ساتھ اچھے تعلقات کو صراحا جاتا ہے۔ وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اگر ہم دوسرے ایسے ممالک کے ساتھ تعلقات نہ رکھیں تو ہماری معاشی حالت خراب ہو گی۔ تو کیا اللہ تعالیٰ نے یہ اجازت دے رکھی ہے کہ ہم رزق کے لیے قرآن کی کسی آیت کو نظر انداز کر دیں۔ اور خدا کے بجائے امریکہ اور اسرائیل جیسے ممالک کا سہارا اپنے لیے بہتر سمجھیں؟ برائے مہربانی میری کم علمی پر درگزر فرمائیں اور اس آیت سے متعلق اپنی رائے واضح فرمائیں۔
جواب
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے جب کبھی کفار کا ذکر کیا ہے یا جس طرح آپ نے سورہ ممتحنہ کی اس آیت کا حوالہ دیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے دشمنوں کا ذکر کیا ہے، تو ايسے مقامات پر مراد وہ غیر مسلم نہیں ہوا کرتے جو آج دنیا میں موجود ہیں۔ جن غیر مسلموں کا ذکر قرآنِ کریم میں اس حوالے سے آیا ہے، یہ وہ لوگ تھے جن کے درمیان اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول کو بھیجا۔ یہ رسول برسہا برس تک ان تک خدا کے دین کی دعوت پہنچاتے رہے۔ اس کے جواب میں ان لوگوں نے نہ صرف نبی کی دعوت کا انکار (کفر) کیا بلکہ یہ بدترین دشمنی پر بھی اتر آئے۔ ان کے اس کفر پر قرآنِ کریم میں انہیں کافر اور ان کی اس دشمنی پر انہیں معاند کہا گیا ہے۔ قرآنِ کریم میں کفار اور یہود و نصاریٰ سے متعلق دوستی نہ کرنے کے حوالے سے جتنے بھی احکام آئے ہیں، وہ سب اسی پس منظر میں ہیں۔ جہاں تک عام غیرمسلموں کا تعلق ہے ان کے متعلق اسی سورہ ممتحنہ کی آیت 8 میں واضح کردیا گیا ہے کہ جنہوں نے مسلمانوں سے جنگ نہیں کی، ان کے ساتھ بھلائی کرنے سے اللہ تعالیٰ نہیں روکتا۔ اس سے مزید بڑھ کر سورہ مائدہ کی آیت 5 میں ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے غیرمسلموں سے نکاح تک کی اجازت دے رکھی ہے جو دوستی سے بڑھ کر محبت کا ایک رشتہ ہے۔ قرآنِ حکیم کے ان بیانات سے واضح ہے کہ اصل مسئلہ اُن کفار کا تھا جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے رسول کی دعوت کی حقیقت کو سمجھ لینے کے باوجود اس کا انکار کردیا اور دشمنی پر آمادہ ہوگئے۔ جہاں تک آج کا معاملہ ہے، تو موجودہ غیرمسلموں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاندین پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ وہ اگر ہمارے ساتھ اچھے ہیں تو ہمیں بھی ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہیے۔ وہ اگر دشمنی کا راستہ اختیار کرتے ہیں تو پھر ہم بھی اپنا لائحہ عمل اختیار کرنے میں آزاد ہوں گے۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2015-12-25