سوال
میرا سوال المورد ویب سائٹ پر پوسٹ کیے گئے ایک جواب سے متعلق ہے جس کا لنک یہ ہے:
http://www.al-mawrid.org/pages/questions_english_detail.php?qid=900&cid=51
اس جواب میں کہا گیا ہے کہ کفر ایک رویہ ہے جو لوگوں کے کسی بھی گروہ پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ اور ایک شخص، اگرچہ وہ کافر ہو یا نہ ہو مشرک ہو سکتا ہے۔ سورہ بیّنہ (۹۸) کی پہلی آیت کے مطابق، “اہل کتاب اور مشرکین میں سے جنہوں نے (قرآن کا) انکار کیا وہ اپنی ہٹ سے باز آنے والے نہیں ہیں، یہاں تک کہ ان کے پاس کھلی ہوئی نشانیاں آ جائیں۔” اسی سورہ کی آیت ۶ میں کہا گیا ہے کہ “بے شک اہل کتاب اور مشرکین میں سے جنہوں نے کفر کیا وہ دوزخ کی آگ میں پڑیں گے، اس میں ہمیشہ رہنے کے لیے، یہی لوگ بدترین خلائق ہیں۔” جب میں ان آیات کا بغور مطالعہ کرتا ہوں تو میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ لوگ جنہوں نے قرآن کو جھٹلایا اور اسلام قبول کیا اصل میں انہوں نے قرآن کو جھٹلایا نہیں بلکہ اسے مانا۔ تو اس آیت میں یہ کیوں کہا گیا ہے کہ جنہوں نے قرآن کو جھٹلایا نہیں وہ پھر بھی مشرکین اور اور اہل کتاب ہیں لیکن کافر نہیں ہیں؟َ برائے مہربانی وضاحت فرمائیے۔
میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے اگر کسی مسلمان نے کسی دوسرے مسلمان کو قتل کیا وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ تو کیا اگر وہ کسی غیر مسلم کو قتل کرے پھر بھی وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا؟
نمبر ۳ یہ کہ قرآن و حدیث کے حوالہ کےساتھ یہ بھی بتائیں کہ وہ کون سا گناہ ہے جس کی پاداش میں انسان ہمیشہ کے لیے جہنم میں جائیگا؟
اور نمبر ۴ یہ کہ کیا گناہ چھوٹا ہو یا بڑا سب کی سزا ایک جیسی ہو گی؟
برائے مہربانی تفصیلی وضاحت فرمائیں۔
جواب
آپ کے سوالات کے جواب حسبِ ذیل ہیں:
١) کفر کے متعلق یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ کفر کسی عقيدے پر ہونے کا نام نہيں بلکہ یہ کسی دعوت يا عقيدے کے رد اور انکار کا نام ہوتا ہے۔ کفر کرنے والابھی کسی نہ کسی عقیدے پر ہوتا ہے۔ یہ عقیدہ شرک، یہودیت یا نصرانیت وغیرہ ہوسکتا ہے۔ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت عرب میں پیش کی، تو آپ کے مخاطبین دو طرح کے لوگ تھے۔ ایک وہ لوگ جنھیں قرآن مشرکین کہتا ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے شرک کو اپنا دین بنارکھا تھا۔ اور دوسرا گروہ اہلِ کتاب کا تھا یعنی یہود و نصاریٰ۔ یہ دونوں گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے موجود تھے لیکن اس سے پہلے نہ ان کے سامنے دعوت پیش کی گئی اور نہ انھوں نے اس کا انکار کیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت ان کے سامنے پیش کی تو ان دونوں گروہوں میں سے کچھ لوگ ایمان لے آئے جبکہ باقی لوگوں نے کفر کا ارتکاب کیا یعنی دعوتِ حق کا انکار کردیا۔
آپ کو شاید یہ بات سمجھنے میں اس لیے دقت پیش آرہی ہے کیوں کہ ہمارے ہاں بالعموم غیرمسلموں کے لیے کافروں کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، لیکن یہ ٹھیک نہیں ہے۔ قرآنِ مجید کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کفر دعوتِ حق کے انکار کو کہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ دعوتِ حق کا انکار کرنے والا کوئی نہ کوئی مذہبی وابستگی رکھتا ہوگا۔ یہ وابستگی دینِ شرک سے بھی ہوسکتی ہے اور یہودیت یا نصرانیت سے بھی۔ آج کے غیرمسلموں کا معاملہ یہ ہے کہ ان تک بالعموم دعوتِ حق نہیں پہنچتی۔ جب ان تک دعوتِ حق پہنچتی ہی نہیں تو ان کے کفر کا کوئی سوال بھی پیدا نہیں ہوتا۔ لہٰذا ان کو ان کی غیرمسلم شناخت ہی سے ذکر کرنا چاہیے۔
٢) یہ بات ٹھیک ہے کہ کسی مسلمان کے قتل کی سزا قرآنِ مجید میں ابدی جہنم بیان ہوئی ہے، (نساء:93)۔ جہاں تک غیرمسلم کے قتل کا تعلق ہے، اس سلسلے ميں ايک اصولی بات قرآن مجید ميں تمام انسانوں کے حوالے سے اس طرح بيان ہوئی ہے:
”اس (قتل) کی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ حکم نازل کیا کہ جو شخص کسی کو (ناحق) قتل کرے گا (یعنی) بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے یا ملک میں خرابی کرنے کی سزا دی جائے اُس نے گویا تمام لوگوں کو قتل کیا۔ اور جو اس کی زندگانی کا موجب ہوا تو گویا تمام لوگوں کی زندگانی کا موجب ہوا۔”، (مائدہ 32:5)
اس آیت سے محسوس یہ ہوتا ہے کہ غیرمسلم کو بے گناہ طور پر جان بوجھ کر قتل کرنے کی سزا بھی ایک مسلمان کو قتل کرنے سے کم نہیں ہونی چاہیے، اس لیے کہ بہرحال دونوں ہی انسان ہیں۔ البتہ ایک مسلمان کو قتل کرنا زیادہ بڑا گناہ ہے، اس ليے کہ يہ خدا کے ايک وفادار کا قتل ہے۔
٣)قرآنِ کریم نے کئی مقامات پر ان گناہوں کو بیان کیا ہے جن کی سزا ابدی جہنم ہے۔ قتل مومن کا ذکر اوپر ہوچکا ہے کہ اس کی سزا ابدی جہنم ہے،(نساء:93)۔سورہ فرقان آیت 68,69 میں شرک، زنا اور قتل کی سزا ابدی جہنم بیان ہوئی ہے۔سورہ نساء آیت 13,14 میں احکامِ وراثت کے حوالے سے یہ بات بیان کی گئی ہے کہ یہ احکام اللہ کے حدود ہیں اور ان کی پامالی کی سزا ابدی جہنم ہے۔ اسی طرح قرآنِ کریم میں جگہ جگہ کفر، نفاق،سرکشی اور تکبر کی سزا ابدی جہنم بیان ہوئی ہے۔
٤)قرآن کریم گناہوں کی سزا جب بیان کرتا ہے تو اس کے لیے مقامِ سزا کے طور پر جہنم کو بیان کرتا ہے۔ بعض گناہوں کے لیے وہ ابدی جہنم کی سزا کا ذکر کرتا ہے جن میں سے کچھ کا تذکرہ اوپر ہوا اور بعض گناہوں کے لیے وہ جہنم کی سزا کا ذکر تو کرتا لیکن سزا کی ابدیت کا اعلان نہیں کرتا جیسے مالِ یتیم کھانے کی سزا جہنم کی آگ بیان ہوئی ہے، (نساء:10) یا بے گناہ عورتوں پر تہمت لگانے کی سزا سورہ نور:23 میں جہنم کا عذابِ عظیم بیان ہوئی ہے۔ لیکن یہاں ابدیت کی قید نہیں ہے۔ قرآنِ کریم کے ان بیانات سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ گناہوں کی نوعیت کی بنا پر سزا کے دورانیے میں فرق رکھا جائے گا۔ جہاں تک سزا کی شدت کا سوال ہے اس میں بھی قرآن کے بیان سے محسوس ہوتا ہے کہ بعض قسم کے مجرموں کے لیے سزا زیادہ سخت ہوگی۔ مثال کے طور پر منافقین کے متعلق قرآن کا فیصلہ ہے کہ وہ جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے، (نساء: 145)۔ نچلے درجے سے یہاں اشارہ عذاب کی شدت کی طرف ہے۔ اس لیے جہنم میں قید مختلف مجرموں کے جرائم کی کی نوعیت اور مدت ان کے جرائم کے اعتبار سے مختلف ہوگی۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2015-12-29