عورت اور مرد كا سترڈھانپنا

16

سوال

جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے کہ مرد کا ستر ناف سے گھٹنوں تک ہے اور یہ نماز کی شرائط میں سے بھی ہے، اس کی کیا حقیقت ہے اور کن دلائل کی بنیاد پر ایسا کہا جاتا ہے ؟ کیا یہ اللہ اور رسول نے متعین کیا ہے یا فقہا کی اپنی رائے ہے ؟ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے ؟

عورت کے ستر کے بارے میں ایک حدیث پیش کی جاتی ہے جو حضرت اسما بنت ابو بکر سے مروی ہے – میرے علم کے مطابق کم و بیش سب ہی علما شاید اسی حدیث کی رو سے چہرہ ، ہاتھ اور پاؤں کے سوا تمام جسم کو ستر قرار دیتے ہیں – کیا علمائے امّت میں سے کسی اور نے بھی اس سے مختلف رائے کا اظہار کیا ہے ؟ کیا اس حدیث میں کوئی ضعف ہے یا اس کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے ؟

جیسا کہ میں سمجھا ہوں ، آپ لوگوں کا کہنا ہے کہ شریعت نے لباس کےحدود و خدوخال متعین نہیں کیے بلکہ شرم و حیا اور ایک مہذب لباس کی تلقین کی ہے ، جب کہ زیب و زینت نہ کی ہوئی ہو- مجھ پر اس کا اطلاقی پہلو کچھ واضح نہیں ہے – گویا ہر ایک کو اپنے لیے مہذب لباس کا فیصلہ خود کرنا ہے ، تو اس فیصلے میں معاشرے کے معروف معیار کا کتنا دخل ہے یا یہ محض اپنے فطری احساس پر مبنی ہے – شرمگاہوں کو اچھی طرح ڈھانپنے کے بعد اگر معاشرے کے معروف کی پیروی کی جا تو کیا دین کا منشا پورا ہو جاتا ہے ؟ شرمگاہوں کی حفاظت تو ایک فطری امر بھی ہے ، لیکن اس سے اوپر اوپر ہر معاشرے میں مہذب لباس کا تصور مختلف ہوتا ہے – ایک مغربی معاشرے میں بازو اور پنڈلی ( اور شاید کندھے بھی ) کھلے ہونے کے باوجود لباس مہذب ہی کہلاتا ہے اور ذرا بھی عجیب اور معیوب نہیں سمجھا جاتا – تو ایک مغربی عورت کو کیسے کہا جا کہ مہذب لباس وہی ہے جو پاکستان میں مہذب کہلاتا ہے – مزید یہ کہ دین میں لباس کے حدود کو متعین نہ کرنے میں کیا حکمت ہے ؟ مثلا کیا یہی کہ مختلف معاشروں میں ان کے حالات کے اعتبار سے رعایت کی جا اور لوگوں کے لیے تنگی نہ پیدا ہو ؟ معلوم نہیں میں اپنا سوال واضح کر سکا ہوں یا نہیں-

براہ کرم میری کم علمی پر در گزر کریں اور تفصیلی وضاحت فرمایں – جزاک اللہ

جواب

آپ کے سوالات کے جواب ترتیب وار درج ذیل ہیں :

١) مرد کا ستر ناف سے گھٹنے تک ہے، یہ فقہا کی راے ہے۔ بعض احاديث (جيسے بيقہی 2/229)ميں اس کی تعين ملتی ہے، مگر وہ ضعيف روايات ہيں (ضعیف الجامع از البانی3826)۔ غالباً فقہا نے ستر کا یہ تعین احتیاط کی بنا پر کیا ہے۔ قرآن مجيد کے مطابق (اعراف 31:)نماز ميں انسان کو اپنے عمدہ کپڑے پہن کر ساللہ تعالیٰ کی بارگاہ ميں آنا چاہيے، صرف ستر چھپانے کا کيا سوال ہے؟ايسا تو صرف ضرورت اور مجبوری ہی ميں ہو گا۔ جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے نماز کے آداب کے عنوان سے اپنی کتاب میزان میں اس سلسلے میں یہ وضاحت فرمائی ہے:

”شایستہ اور مناسب لباس پہن کر نماز پڑھے۔ حضور کا ارشاد ہے کہ ایک ہی کپڑا ہو تو اس طرح نہیں اوڑھنا چاہیے کہ اُس کا کچھ حصہ کندھوں پر نہ ہو۔ (مسلم، رقم1151) اسی طرح فرمایا ہے کہ بالغ عورتیں اوڑھنی لیے بغیر نماز پڑھیں تو اللہ تعالیٰ اُسے قبول نہیں کرتے۔ (ابوداؤد، رقم 641)”، (میزان، قانون عبادات ص 326-327)

٢) جس حدیث کا آپ نے حوالہ دیا ہے وہ ضعیف ہے۔عورت کا جو ستر آپ نے لکھا ہے وہ آزاد عورتوں کے ضمن ميں ہے، لونڈيوں کا ستر تو فقہا کچھ مختلف بيان کرتے ہيں۔ يہ دلچسپ چيز ہے۔ کبھی کسی محقق عالم سے رابطہ کرکے کسی لونڈی کا ستر دريافت کيجيے۔

٣) ایک خاتون کے لیے مناسب لباس کیا ہے دورِ جدید سے پہلے اس میں کوئی بہت زیادہ ابہام نہیں پایا جاتا تھا۔ دورِ جدید میں چونکہ عریانی اور خواتین کا اپنی جسمانی نمائش کرنا خود ایک قدر بن چکا ہے اسی لیے اب مختلف معاشروں میں ایسے لباس بھی رائج ہیں جو عریانی کا پہلو لیے ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود مہذب کہلاتے ہیں۔ تاہم جو تہذیب نبیوں نے قائم کی تھی اور جس کے اثرات دینا بھر میں پڑے اس کے مطابق ہاتھ، پاؤں اور چہرے کے علاوہ عورت کے باقی جسم کا ڈھکا ہونا عورت کے مہذب لباس کا ایک لازمی تقاضا تھا۔ لیکن خواتین چونکہ ہر وقت مردوں کے درمیان ہی میں نہیں ہوتیں بلکہ زندگی کا بڑا حصہ صرف عورتوں یا گھر کے قریبی مردوں کے درمیان ميں گزارتی ہیں اس لیے موسم یا جغرافیے کی بنا پر لباس کے معاملے میں بہت کچھ رعایت بھی عام رہی ہے۔ لیکن یہ رعایت بازؤں، سر اور پنڈلی وغيرہ کے کچھ حصے ہی کے کھلے ہونے تک محدود رہی ہے۔ حقیقی مہذب لباس وہی ہوتا ہے جس میں پورا جسم ڈھکا ہوا ہو۔

مجیب: Rehan Ahmed Yusufi

اشاعت اول: 2015-12-29

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading