سوال
بچوں کو جو نظر لگ جاتی ہے کیا اس کی کوئی حقیقت ہے؟ کہا جاتا ہے کہ بچے کو اگر نظر لگ جائے تو آگ میں کالا دھاگہ جلانے سے نظر ختم ہوجاتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی شخص وضوکر کے اپنے ہاتھ کی انگلیوں کا پانی بچے پر ڈالے تو نظر اتر جاتی ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دیجیے؟
جواب
انسان کو زندگی میں جو مسائل پیش آتے ہیں ان کے حل کرنے کے صرف دو طریقے ہیں: ایک یہ کہ اپنی عقل اور علم انسانی کو استعمال کیا جائے ۔ جیسے بخار کی شکل میں ڈاکٹر کے پاس جا کر مرض کی تشخیص کرائی جائے اور پھر اس کی تجویز کردہ دوا کھائی جائے ۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اگر عقل اور علم انسانی کسی مسئلے کا حل نہ رکھتی ہوں تو اللہ تعالیٰ سے دعا اور مدد کا راستہ اختیار کیا جائے اور اسی پر بھروسہ کیا جائے ۔ تیسرا کوئی راستہ مثلاً توہمات کو اختیار کرنا وغیرہ درست نہیں ۔
احادیث میں نظر لگنے اور اس کے علاج اورجھاڑ پھونک (رُقْیہ)کا ذکر آیا ہے (بخاری ، رقم5406۔مسلم ، رقم2195)۔ اس سے بچنے کے لیے کوئی ایسا طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہیے جو توہمات پر مشتمل ہو۔ قرآن میں بہت سی پاکیزہ دعائیں آئیں ہیں جن میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کی گئی ہے اور اس کی پناہ و عافیت مانگی گئی ہے ۔ جیسے سورۂ فاتحہ، آیۃ الکرسی، معوذتین، وغیرہ ۔ احادیث میں بھی اس نوعیت کے بعض اذکار کا بیان ہے جن میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کی گئی ہے ۔ انہی کو اختیار کرنا چاہیے ۔
آپ نے جو دو طریقے بیان کیے ہیں ان میں سے پہلے کی تو کوئی اصل ہمیں کہیں نہیں مل سکی۔البتہ دوسری بات سے متعلق روایات میں ایک واقعے کا بیان ہے جس کی تفصیل درجِ ذیل ہے :
’’صحابۂ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کی طرف جا رہے تھے کہ ایک مقام پر حضرت سہل بن حنیف نے جو بہت خوبصورت جسم اور گوری رنگت والے تھے ، غسل کیا۔قریب ہی حضرت عامر بن ربیعہ بھی نہا رہے تھے ۔ عامر نے انھیں دیکھا تو کہا کہ میں نے آج کے دن کی مانند کوئی دن نہیں دیکھا اور نہ سہل کی مانند کسی پردہ نشین کی جلد دیکھی ہے ۔اس پر سہل گرگئے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو صحابہ نے عرض کیا کہ کیا آپ سہل کے لیے کچھ کریں گے ، وہ تو اپنا سر تک نہیں اٹھا رہے اور نہ ان کی حالت میں کوئی بہتری ہے ۔فرمایا کہ کیا تمھیں کسی کے متعلق گمان ہے کہ سہل کو اس کی نظر لگی ہے ۔ عرض کیا کہ عامر بن ربیعہ نے انہیں دیکھا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بلایا اور ان پر ناراض ہوئے اور فرمایا کہ تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کیوں قتل کرتا ہے ۔ایسا کیو ں نہ ہوا کہ تم نے جب انھیں دیکھا اور جو چیز تمھیں اچھی لگی اس کے لیے برکت کی دعا کیو ں نہ دی۔پھر ان سے کہاکہ سہل کے لیے غسل کرو۔ تو انہوں نے اپنا منہ ، دونوں ہاتھ ، کہنیاں ، گھٹنے ، پیر تمام اطراف سے اور تہبند کے اندر کے اعضا کو اس طرح دھویا کہ ان کا پانی ایک برتن میں جمع ہو گیا۔پھر وہ پانی سہل پر ڈالا گیا تو سہل اس طرح اٹھ کر لوگو ں کے ساتھ چلے گئے کہ گویا ان کوئی تکلیف نہ تھی۔‘‘ (مسند احمد ، رقم16023)
اسی عمل کو بعض روایات میں اس طرح تعبیر کیا گیا ہے کہ وہ جس کی نظر لگی ہو، وہ وضو کرے اور پھر یہ وضو کا پانی نظر لگنے والے پر ڈالا جائے ۔ آپ نے بھی انہی روایات پر مبنی کوئی بات سنی ہو گی ۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2016-01-18