تخلیق کائنات اور تخلیق آدم ۔ آخر کیوں

24

سوال

محترم ریحان احمد صاحب

اس مفصل تحریر کا شکریہ۔ کاش کہ میں اپنے سوال میں ایک نکتہ کا اور اضافہ کر دیتا تو آپ کے رشحات قلم میرے اشکال کی بیخ تک پہنچ کر میرے اطمینان کا باعث بنتے۔

میں ان تمام معاملات میں خدا کی حکمت کا منکر ہرگز نہیں۔ لیکن سوچتا ہوں کہ خدا نے یہ سب بغیر اپنے فائدہ اور ضرورت کے پیدا کیا۔ کچھ حکمتیں مقر ر کیں اورہم ان حکمتوں کا شکار بنے۔ اس نے جو چاہا کیا ۔ فیل اور پاس کے امکانات بھی اس نے پیدا کیے۔ پھر ہم فیل اور پاس بھی ہوے تاکہ اس کی حکمت کے تقاضے پورے ہوں۔ حکمت تو پوری ہوئی مگر ہمارے نفع نقصان کی قیمت پر۔ خداکو اس سب کے برپا کرنے کی ضرورت نہ تھی نہ ہی ہمیں ضرورت تھی کہ یہ سب برپا ہو۔ ابو بکر بھی تمنا کرتے تھے کہ کاش جنے نا جاتے۔ کچھ ایسا ہی تاثر میرا ہے کہ کاش یہ سب نا ہوتا۔ بھلے ہمیں زندگی نہ ملتی، شعور نہ ملتا، جنت نا ملتی۔ مگر وہ جو ناکام ہوئے وہ بھی نہ ہوتے۔ خدا نے جو چاہا کیا، مگر بلا ضرورت کیا۔ تو کیا یہ رحمانیت ہے؟

محترم میں خدا سے ڈرتا ہوں مگر میں اس سے محبت کرنا چاہتا ہوں۔ اس کا تعارف رحمان اور رحیم سے شروع ہوتا ہے، اور میں ابھی اسی کو نہیں سمجھ پا رہا۔ میں خدا پر اعتراض نہیں کرنا چاہتا، سمجھنا چاہتا ہیں۔جواب درد مندی سے دیجئیے گا۔

جواب

حترم عرفان شہزاد صاحب

السلام علیکم و رحمت اللہ وبرکاتہ

آپ کا یہ سوال ایک درست سوال ہے اور ہر اس شخص کے ذہن میں پیدا ہوتا جو حقائق تک پہنچنا چاہتا ہے ۔ اس سوال کے دو پہلو ہیں۔ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے یہ سب کیا ہی کیوں ہے۔دوسرا یہ کہ ہمیں اس پورے معاملے میں کیوں شریک کیا جبکہ ناکامی کی شکل میں انتہائی سخت صورتحال کے سامنے کا امکان ہے۔

پہلے سوال کا جواب دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک انتہائی خوبصورت سورت یعنی سورہ رحمان نازل کی ہے۔ اس سورت کا مقصد ہی اس نوعیت کے سوالات کا جواب دینا ہے۔

یہ سورت ہمیں بتاتی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت ہے جس کے ظہور کے لیے انسان کو تخلیق کیا گیا ہے۔ شمس و قمر ، نجم و شجر اورآسمان و زمین کی دیگرمخلوقات کی بنسبت جو پابند ہیں انسان کو سب کچھ آزادانہ کہنے اور کرنے کی اجازت ہے۔خدا کی منشا تو یہ ہے کہ جو حسن وخوبصورتی جمال و کمال اور توازن اس نے کائنات میں تخلیق میں کیا اور اس کے بعد حسین کائنات کو اس عاجز مگر خودمختار مخلوق یعنی انسان کے حوالے کردیا ہے تو اب یہ انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا حسن اپنی ہوس کے ہاتھوں برباد نہ کرے بلکہ اعتراف، شکر گزاری، حمد اور محبت خداوندی کے احساس میں جیے۔ یہی جن و انسان کی تخلیق کا مقصد ہے۔ اس مقصد میں آسانی و سہولت دینے کے لیے پروردگار نے زمین سے آسمان تک نعمتوں اور عنایتو ں کے انبار اکھٹے کردیے ہیں۔کیا آسمان، کیا زمین اور کیا سمندر ہر جگہ انسان کی ضروریات، خواہشات،سہولیات اور ذوق جمال کی تسکین کا بھرپور انتظام کردیا گیا ہے۔ اور لوگ جو مانگتے ہیں وہ ان کو دیتا چلا جاتا ہے۔ مگر انسان فنا و بقا کی اس اسکیم کے پہلے ایکٹ کو کل کہانی سمجھ بیٹھتے ہیں۔ وہ موت کو بھول کر غفلت اور خواہش کے اسیر ہوجاتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں زمین ظلم اور فساد سے بھرجاتی ہے۔ انسان بھول جاتا ہے کہ ایک روز اسے مر کر اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے کہاں مجرموں کے لیے بدترین عذاب ہے۔ البتہ جو لوگ اس اسکیم میں اعتراف، شکر اور حمد کی جگہ پر کھڑے ہوں گے ان کے لیے خدائے رحمن اپنی عنایتوں اور بخششوں کے وہ در کھولے گا کہ کسی سے سمیٹا نہ جائے۔ ہر وہ نعمت جس کا انسان تصور کرسکتے ہے اور نہ کرسکے اسی دی جائے گی اور ہر مصیبت اور تکلیف سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسے بچاکر اس فردوس میں بچالیا جائے جو ماضی کے ہر پچھتاوے اور مستقبل کے ہر اندیشے سے خالی ہوگی۔

خلاصہ یہ کہ اللہ تعالیٰ انسان پر اپنی غیر معمولی عنایتوں کا ظہور چاہتے تھے اس لیے انہوں نے یہ پوری تخلیق کی۔ اور اس بیچ میں اگر کوئی مشکل فساد نظر آتا ہے تو خود انسانوں کا پھیلا ہوا فساد ہے ورنہ یہ کائنات تو ہر پہلو سے رحمت خداوندی کا ایک نمونہ ہے۔ میں بار بار اس بات پر توجہ دلاتا ہوں کہ اس دنیا میں انسانوں کی اکثریت زندگی کے غالب ترین وقت میں نعمتوں میں جیتی ہے، مگر وہ اس پر شکر ادا نہیں کرتے بلکہ اگر کبھی مصیبت میں آجائیں شکوے شکایت سے آسمان سر پر اٹھالیتے ہیں۔ یہی وہ سچائی ہے جسے لوگ ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔

دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ اس اسکیم میں اگر انسان مرکزی جگہ پر کھڑا ہے تو یہ زبردستی نہیں ہوا بلکہ انسان نے خود اس امتحان میں اترنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ سورہ احزاب کی آخری آیات میں یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ آسمان وزمین اور پہاڑ سب نے اس بوجھ کر اٹھانے سے انکار کردیا تھا مگر انسان نے اسے قبول کیا۔ انسان آج بھی یہی کرتے ہیں۔ ہم جس امتحان میں کامیابی کی امید اور ترقی کا امکان نظر آئے فورا کودجاتے ہیں۔ اسی اصول پر ہم سب اپنے بچوں کو اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم اور امتحان کی مشقت میں ڈلواتے ہیں۔ اس لیے کہ یہی ہماری فطرت کے کہ ترقی اور کامیابی کی امید پر ہم ناکامی کا رسک لیتے ہیں۔ یہی ہم نے روز ازل کیا تھا۔ اب اس امتحان میں ہم اگر ناکام ہوتے ہیں تو یہ ہماری کوتاہی ہے۔ یہ وجہ نہیں کہ امتحان مشکل ہے۔ ہمیں اللہ سے شکوے کرنے کے بجائے اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔ باقی جب امتحان ہوتا ہے تو لوگ ناکام تو ہوتے ہیں ہیں۔ مگر ایسے لوگ اس رحمانی اسکیم کا بائی پروڈکٹ ہیں اصل مقصود نہیں۔ اصل مقصود صالح اہل جنت ہیں۔

باقی اگر آپ ابھی بھی اس امتحان سے نکلنا چاہتے ہیں تو صد بسم اللہ۔ یہ اہتمام کرلیجیے کہ کسی پر ظلم نہ کریں گے۔ اس کے بدلے میں قیامت کے دن اللہ سے یہ مانگ لیجے گا کہ مجھے جہنم میں نہ پھینکے۔ وہ نہیں پھینکے گا۔ باقی جنت کے بارے میں اللہ کو بتادیجیے گا کہ مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ کے لیے فنا کردیں گے۔ تاہم مجھے اس منظر کو دیکھنے کی خواہش رہے گی کہ کوئی شخص جنت کو دیکھ کر یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ مجھے اس میں دلچسپی نہیں۔ چاہے اس کی کوئی بھی قیمت رکھ د ی جائے۔ چاہے اس کے بدلے میں انسان سے اس کا سب کچھ مانگ لیا جائے۔

والسلام

مجیب: Rehan Ahmed Yusufi

اشاعت اول: 2015-10-18

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading