سوال
بعض لوگ جادو کو محض ہاتھ کی صفائی اور شعبدہ بازی کہتے ہیں۔ جو لوگ اس کے محدود اثر کو قرآن کی رو سے مانتے ہیں تو یہی حضرات اس کو شرک کے مرتکب سمجھتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا جادو واقعی ہاتھ کی صفائی ہے یا یہ کوئی علم ہے؟ مزید یہ کہ جادو کے اسباب کیا ہیں؟ اور کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کا اثر ہوا تھا؟ برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیے کہ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جادو کا اثر ہو سکتا ہے تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر کیوں نہیں ہو سکتا؟ اگر کوئی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کے اثر کا قائل ہو تو کیا وہ سورہ بنی اسرائیل کی آیت ۸ کی رو سے ظالم نہیں ہے؟ برائے مہربانی تفصیلی وضاحت فرمائیں۔
جواب
آپ کے سوالات کے جواب حسب ذيل ہيں:
١) ہاتھ کی صفائی ياشعبدہ بازی جادو نہیں ہوتی، ایک نوعیت کا کرتب ہوتا ہے۔جہاں تو جادو کا سوال ہے تو ہمارے نزديک اس دنيا ميں جس طرح سائنسی علوم موجود ہيں، اسی طرح تجربات و مشاہدات سے يہ معلوم ہوتاہے کہ کچھ نفسی علوم بھی پائے جاتے ہيں۔ان ميں سے ايک علم جادو ہے۔ جادو ٹونہ کا تذکرہ قرآن پاک (فلق4:113،بقرہ102:2)ميں آيا ہے۔ قرآن کريم سے يہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ سحر يا جادو لوگوں کے تخيل، محسوسات اور قوتوں پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔ جيسا کہ ان آيات سے واضح ہے:
”انہوں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کرديااور ان پر دہشت طاری کردی اور ايک بڑازبردست جادو بنا لائے ” ، (اعراف116:7)
”تو دفعۃًان کی رسياں اور ان کی لاٹھياں، ان کے جادو کے زور سے،موسیٰ کو دوڑتی ہوئی محسوس ہونے لگيں”،(طہ66:20)
اس علم کے مقاصد عام طور پر منفی ہوتے ہيں اور اس ميں کيے جانے والے اعمال عموماً ناپاک ہوتے ہيں۔ بعض اوقات ان میں مشرکانہ اعمال بھی کیے جاتے ہيں۔ اس ليے يہ ايک ممنوع علم ہے۔
٢) بعض صحيح روايات ميں رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم پر جادو کا ذکر آيا ہے۔ تاہم ان کے متعلق درست بات وہی ہے جو مولانا اصلاحی نے سورہ فلق کی تفسير کے تحت بيان کی ہے۔ اسی میں انھوں حضرت موسیٰ پر ہونے والے جادو کے ان اثرات کی بھی وضاحت کردی ہے جن کا ذکر سورہ طہ کی مذکورہ بالا آيت میں بيان ہوا ہے۔ آپ کی سہولت کے ليے ان کی رائے ہم ذیل میں درج کيے دیتے ہيں:
”یہ سورہ کسی شان نزول کی محتاج تو نہیں ہے لیکن اس کے تحت لوگوں نے ایک واقعہ نقل کیا ہے جس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر العیاذ باللہ کچھ یہودیوں نے ایک زمانے میں جادو کردیا تھا جس سے آپ بیمار ہوگئے تو آپ کو یہ سورہ سکھائی گئی تو آپ اس جادو کے اثرات بدسے محفوظ ہوئے۔
اگرچہ دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ اس جادو کا کوئی اثر آپ کے فرائض نبوت پر نہیں پڑا لیکن ساتھ ہی نہایت سادہ لوحی سے یہ اعتراف بھی کرلیا گیا ہے کہ اس کا اثر حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ پڑا کہ ‘آپ گھلتے جا رہے تھے’ کسی کام کے متعلق خیال فرماتے کہ کرلیا ہے لیکن نہیں کیا ہوتا، ازواج مطہراتؓ کے متعلق خیال فرماتے کہ ان کے پاس گئے ہیں لیکن نہیں گئے ہوتے، بعض اوقات اپنی نظر پر بھی شبہ ہوتا کہ ایک چیز کو دیکھا ہے مگر نہیں دیکھا ہوتا۔ ان حضرات کے بیان کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت گھنٹے دو گھنٹے یا دن دو دن نہیں بلکہ پورے چھ ماہ رہی۔ اب سوال یہ ہے کہ جب پورے چھ ماہ آپ پر ‘العیاذ باللہ’تعطل دماغ کی یہ کیفیت طاری رہی تو کیا یہ امکان مستبعد قرار دیا جاسکتا ہے کہ ‘العیاذ باللہ’ آپ نے خیال فرمایا ہو کہ نماز پڑھ لی ہے درآنحالیکہ نہ پڑھی ہو یا یہ کہ نازل شدہ وحی کاتبین وحی کو لکھوا دی ہے حالانکہ نہ لکھوائی ہو یا یہ کہ جبریل امینؑ کو دیکھا ہے حالانکہ نہ دیکھا ہو؟ ان امکانات کو آپ کس دلیل سے رد کرسکتے ہیں؟ اگر کوئی کہے کہ اس طرح کی کوئی بات روایات میں نہیں ملتی تو ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ روایات میں تمام جزئیات کہا ںبیان ہو سکتی ہیں، لیکن ایک ایساشخص جس کی ذہنی حالت آپ کے بیان کے مطابق دہ ہے جو مذکورہوئی تو اس سے ان باتوں کا صادر ہونا تعجب انگیز نہیں بلکہ نہ صادر ہونا تعجب انگیز ہے۔
میرے نزدیک اس شان نزول کو رد کرنے کے لیے یہ دلیل کافی ہے کہ یہ اس مسلمہ عقیدے کے بالکل منافی ہے جو قرآن نے انبیا علیہم السلام سے متعلق ہمیں تعلیم کیا ہے۔ عصمت، حضرات انبیاء علیہم السلام کی ان خصوصیات میں سے ہے جو کسی وقت بھی ان سے منفک (الگ) نہیں ہوسکتی۔اس عصمت کو اس امر سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا کہ نبی کے دندان مبارک شہید ہوگئے یا وہ زخمی ہوگیا یا قتل کردیا گیا۔ان میں سے کوئی چیز بھی اس کی نبوت میں قادح (عيب پيدا کرنے والی )نہیں ہے کہ اس کو آپ اس امر کی دلیل بنائیں کہ جب نبی ان چیزوں میں مبتلا ہوسکتا ہے تو مسحور بھی ہوسکتا ہے یہاں تک کہ اس کو کردہ اور ناکردہ، دیدہ ونادیدہ میں کوئی امتیاز ہی باقی نہیں رہ جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس طرح کے شیطانی تصرفات سے اپنے نبیوں کو محفوظ رکھا ہے اور ان کی یہ محفوظیت دین کے تحفظ کے لیے ناگزیرہے۔ یہ محفوظیت ہی نبی کے ہر قول وفعل کو سند بناتی ہے۔ پورا قرآن انبیاء کی عصت پر گوارہ ہے اور ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ ان کی عصمت پر ایمان رکھے۔
شان نزول کے اس واقعہ کو اگر روایت کے اصولوں پر جانچا جائے تو اس میں نمایاں ضعف موجود ہے۔ صحاح کی ایک روایت میں رنگ آمیزی کرنے کے لیے تیسرے درجے کی ضعیف وموضوع روایتوں کا سہارا لیاگیا ہے اور اس کو ایک امر واقعہ کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ روایت صحاح میں سے صرف بخاری، مسلم اور ابن ماجہ نے لی ہے اور سند کے تیسرے واسطہ تک یہ خبر واحد ہی رہی ہے۔ حتیٰ کہ بخاری کی ایک روایت میں سفیان بن عینیہ یہ اقرار کرتے ہیں کہ میں نے اسے ابن جریح سے بالکل پہلی مرتبہ سنا۔ گویا اس واقعہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے سو سال بعد شہرت پائی، اس سے پہلے اس کا علم صرف بعض افراد تک محدود رہا۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ‘العیاذ باللہ’ اگر حضورصلی اللہ علیہ وسلم چھ ماہ تک مسحور رہے ہوتے تو یہ واقعہ اتنا غیر معمولی تھا کہ صدر اول ہی میں اس کا چرچا ہوجاتا اور یہ روایت ایک متواتر روایت کی حیثیت سے ہم تک پہنچتی۔
صحاح کی کسی روایت میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اگریہ جادو ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کا اثر کتنا عرصہ رہا۔ اس کے برعکس ان تینوں کتابوں کی متفق علیہ روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ‘حتی اذا کان ذات يوم ا وذات ليلة دعا رسول الله صلی الله عليه وسلم ثم دعا ثم دعا’ (یہاں تک کہ جب ایک دن یا ایک رات گزرگئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پے در پے دعا کی) اس سے معلوم ہوا کہ اگر اس کا کوئی اثر آپ کی قوت متخیلہ پر پڑا بھی تو وہ چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں رہا۔ پھر آپ نے اللہ تعالیٰ سے بار بار دعا کی اور یہ اثر جاتا رہا۔ اگر ایسا ہوا تو یہ بالکل اسی قسم کی بات ہوئی جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہم السلام نے جادوگروں کی رسیوں اور لاٹھیوں کو سانپ سمجھ لیا اور وقتی طور پر گھبرا گئے۔ اس طرح کی کیفیات تھوڑی دیر کے لیے طاری ہوجانا ناممکن نہیں ہوتا۔ یہ کیفیات بطور امتحان بھی نبی کو پیش آسکتی ہیں لیکن ہوتی یہ وقتی اور عارضی ہیں تاکہ نبی کی عصمت مجروح نہ ہو۔” (تدبر قرآن :9/665-666)
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2015-12-16