سوال
تزکیہ نفس کے صفحہ ٢٤٤پر “نماز کی ہیئت ” کے عنوان کے تحت اصلاحی صاحب نے نمازمیں ہاتھ کے پھیلانے کا جو ذکر کیا ہے اس کو واضح کریں۔ کہیں اس سے نماز کے بعد ہاتھ اٹھانا تو مراد نہیں جو نبیؐ نے فرض نماز کے بعد کبھی نہیں اٹھایا ہے۔
تزکیہ نفس کےصفحہ245 پرنمازکی دعائیں کےعنوان کے تحت لکھا ہے کہ بندہ کونمازمیں داخل ہوتےوقت دعا ابراہیمی پڑھنی چاہیے:
اني إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَْا مِنَ الْمُشْرِكِينَ (الإنعام 79)
اسکا ماخذ کیا ہے؟ اگریہ عمل نبی نے کبھی نہیں کیا تو پھر کیا یہ بدعت نہیں ہے ؟ کیونکہ ہم بطور دین نماز کے شروع،درمیان اور آخر میں کوئی اضافہ نہیں کر سکتے۔ قرآن اور حدیث کی روشنی میں وضاحت فرما دیں۔
جواب
اصلاحی صاحب نماز کی ہیئت میں جن قلبی کیفیات کا ذکر کررہے ہیں وہ دین میں عین مطلوب ہیں۔ نماز کی ظاہری ہیئت بھی ایسی مقرر کی گئی ہے جو ان کیفیات کے حصول میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ باقی جہاں تک ہاتھ پھیلاکر دعا مانگنے کا تعلق ہے تو اس سے لازم نہیں آتا کہ اصلاحی صاحب فرض نماز کے بعد بھی ہاتھ اٹھاکر دعا مانگنے کو نماز کا ایک جزو قرار دے رہے ہیں۔ بلکہ اس سے مراد وہ نفل نمازیں بھی ہوسکتی ہیں جس میں انسان رات کی تنہائی میں اپنے رب کے حضور گڑگڑارہا ہوتا ہے۔
یہاں یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ اصلاحی صاحب نے تزکیہ نفس میں نماز کے موضوع پر اس لیے قلم نہیں اٹھایا کہ نماز کا قانون واضح کریں بلکہ اس کا مقصد نماز کی حقیقت کو لوگوں پر واضح کرنا ہے۔ نماز کی اگر قانونی تفصیل پڑھنی ہو تو استاذِ گرامی جناب جاوید احمد صاحب غامدی کی کتاب میزان میں تفصیلاً ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
اصلاحی صاحب نے جس دعا کا ذکر کیا ہے وہ کوئی بدعت نہیں بلکہ ایک مسنون دعا ہے جسے امام مسلم نے حضرت علی کے حوالے سے نقل کیا ہے،(مسلم ،رقم1812)۔ یہ وہ دعا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے تو تکبیر کے بعد کیا کرتے تھے۔ خیال رہے کہ اس طرح کی بہت سی دعائیں منقول ہیں لیکن عام لوگوں کو ایک ہی دعا یاد ہوتی ہے اس لیے یہ سمجھتے ہیں کہ باقی دعائیں بدعت ہیں۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2015-11-18