سوال
قرآن مجید میں تین الفاظ ‘نفس’، ‘روح’ اور ‘وحی’ کی وضاحت مطلوب ہے۔ کیا روح اور وحی ایک ہی چیز ہیں یا الگ الگ؟ کیا ہمارے اجسام میں روح موجود ہوتی ہے؟ اور قرآن کی ۱۷: ۸۵ آیت میں روح کا ذکر کیا گیا ہے یا وحی کا؟ برائے مہربانی تفصیلی وضاحت فرمائیں۔
جواب
آپ نے قرآن مجید میں آنے والے تین الفاظ ‘نفس’، ‘روح’ اور ‘وحی’ سے متعلق دریافت کیا ہے ۔ اس سلسلے میں ہمارا نقطہ نظر درج ذیل ہے:
نفس: نفس قرآن مجید میں اُن معنوں میں استعمال ہوا ہے جن میں ہم ‘جان’ کا لفظ بولتے ہیں۔ یہ انسان کا اصل وجود ہے جو ہماری شخصیت کی نمائندگی کرتا ہے ۔اس مقصد کے لیے ہماری زبان میں عام طور پر ‘روح’ کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہےں۔ تاہم اس فرق کو سمجھ لینا چاہیے کہ روح یا Soul کا لفظ قرآن مجید میں ان معنوں میں استعمال نہیں ہوابلکہ اس مفہوم کے لیے نفس کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
روح: روح کا لفظ قرآن مجید میں متعدد معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ یہ لفظ حضرت جبرائیل کے لیے استعمال ہوا ہے (القدر:4، مریم:17)۔ یہ لفظ وحی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے (غافر:15)۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے اذنِ خصوصی کے لیے بھی استعمال ہوا ہے (حجر:29)۔ آپ نے سورہ بنی اسرائیل کی جس آیت (85) کے حوالے سے سوال کیا ہے اس میں ‘روح’ کا لفظ ‘وحی الہٰی’ کے لیے استعمال ہوا ہے۔
وحی: وحی سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ پیغام ہے جو وہ اپنے نبیوں اور رسولوں پر نازل کرتے ہیں۔ البتہ قرآن مجید میں بعض مقامات پر یہ لفظ اپنے لغوی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ سورہ نحل:68 میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ”تیرے رب نے شہد کی مکھی پر یہ القاء کیا ہے کہ۔۔۔۔۔۔”۔ الہام، القاء کرنے یا دل میں ڈالنے کے اسی مفہوم میں یہ لفظ سورہ طٰہٰ آیت 38 میں حضرت موسیٰ کی والدہ کے حوالے سے استعمال ہوا ہے۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2015-12-16