کتا پالنا

51

سوال

میرے شوہر کتے کو بطور پالتو جانور گھر میں رکھنا چاہتے ہیں ، لیکن میں نے سنا ہے کہ وہ ناپاک جانور ہے ۔براہِ مہربانی بتائیے کہ کیا ہم کتے کو پال سکتے ہیں یا نہیں ؟

جواب

ہمارے ہاں کتوں کے حوالے سے ایک انتہائی منفی تأثر موجود ہے ۔ اس کا سبب وہ احادیث ہیں جن میں کتوں کی وجہ سے اعمال کے اجر کا کم ہوجانا، نمازوں کا ٹوٹ جانا، ان کی وجہ سے فرشتوں کا گھرمیں نہ آنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کتوں کو ماردینے کا حکم وغیرہ شامل ہے ۔مسلمانوں تک تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں کہ وہ کتے نہ پالیں لیکن دور جدید میں مغربی تہذیب میں کتوں کو پالنے ، ان سے محبت کرنے کی عام روایت موجود ہے ۔ چنانچہ اسلام دشمن مستشرقین ان احادیث کو لے کر اہل مغرب کو اسلام سے متنفر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر بھی توہین آمیز حملے کرتے ہیں ۔ ا س لیے اس معاملے کی وضاحت تفصیل کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے ۔

ہم اس معاملے کو جس طرح دیکھتے ہیں اس میں بنیادی چیز قرآن کریم کے بیانات ہیں ۔ ہمارے نزدیک دین میں ہر حلت و حرمت کا فیصلہ قرآن پاک کی بنیاد پر ہونا چاہیے اور احادیث کو اس کی روشنی میں اور اس کے ذیل میں رکھ کر سمجھنا ضروری ہے ۔ قرآن کریم میں اصحاب کہف (کہف18: 9۔26)کے واقعے میں کتوں کا ذکر ملتا ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان کے آخری مقام پر فائز تھے اور ان کی ذات کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک نشانی بنادیا تھا۔وہ ایک طویل عرصے تک ایک غار میں سوتے رہے اور ان کا کتا اس عرصے میں غار کی چوکھٹ پر ان کے ساتھ رہا۔سوال یہ ہے کہ کتا اگر رحمت خداوندی کو دور کرنے والا اورفرشتوں کی آمد میں خلل کا سبب ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی اُس انتہائی خصوصی رحمت اورنصرت میں کیوں رکاوٹ نہیں بنا جو اصحاب کہف کے ساتھ ہوئی۔یہ ہو بھی گیا تو نصرت و رحمت کے اس موقع پر اس کا ذکر قرآن میں کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس کی موجودگی کو نظر انداز کر کے بھی واقعہ کو بیان کیا جا سکتا تھا، مگر اللہ تعالیٰ نے ایسانہیں کیا۔

پھر قرآن کریم میں ایک اور مقام (مائدہ5: 4) میں اللہ تعالیٰ نے ان شکاری جانوروں ’جن میں کتا بھی شامل ہے ‘کا پکڑ ا ہوا شکار جائز قرار دیا ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ تم انھیں اللہ کے دیے ہوئے علم کی بنا پر سکھاتے ہو۔ اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ کتا اس پہلو سے بھی انسانوں سے کتنا قریب رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے شکار کیے ہوئے جانور کو کھانے کی اجازت دی اور تحسین کے انداز میں ان کی تربیت کا تذکرہ کیا ہے ۔

شکار کے علاوہ حفاظت کے پہلو سے بھی کتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی اورآج بھی انسانوں کے لیے بہت مفید ہے ۔متعدد صحیح احادیث سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ شکار اور مویشی اور کھیتوں کی رکھوالی کے لیے کتوں کو رکھنے کی اجازت دی گئی ہے (مسلم، رقم2937)۔ اگر کتوں کی وجہ سے وہ مسائل پیدا ہوتے ہیں جن کا اوپر بیان ہوا توکوئی صحابیٔ رسول یہ گوارا نہ کرتا کہ وہ شکار اور حفاظت کی غرض سے کتا رکھے ۔صحابہ میں سے کون یہ چاہتا تھاکہ اللہ کے فرشتے اس کے ہاں نہ آئیں ۔

ہمارے نزدیک اس معاملے کی تمام احادیث کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ بظاہر اُس زمانے میں مدینہ کے کتوں میں کوئی بیماری پھیل گئی تھی۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ماردینے کا حکم دیا۔ کتا عام طور پر انسانوں سے بہت قریب ہوجاتا ہے ۔ وہ اپنے منہ کو قریب لا کر اپنے مالک کو سونگھتا اور بعض اوقات اس کے اعضا چاٹ لیتا ہے ۔چنانچہ یہ اندیشہ تھا کہ کتوں کے امراض انسانوں میں منتقل ہو سکتے ہیں ، اس لیے ان کو ماردینے کے علاوہ پالتو جانور کے طور پر انھیں گھروں میں اور اپنے پاس رکھنے ، مساجد کے قریب لانے کی بھی مختلف اسالیب میں حوصلہ شکنی کی گئی ۔

جہاں تک کتوں کی وجہ سے فرشتو ں کے گھروں میں نہ آنے کا سوال ہے تو بظاہر اس کا تعلق بھی بیماری والے مسئلے سے محسوس ہوتا ہے ۔ اس لیے کہ جس روایت میں یہ بات بیان ہوئی کہ جبریل امین کتے کی موجودگی کی بنا پر نبی کریم کے گھر تشریف نہ لائے ، اسی میں یہ بھی بیان ہوا کہ اگلے روز ہی حضور نے تمام کتوں کو مارڈالنے کا حکم دے دیا تھا۔ یہ روایت متعدد طریقوں سے نقل ہوئی ہے ۔ تاہم اس کا سب سے جامع بیان صحیح مسلم میں اس طرح آیا ہے:

’’ام المومنین حضرت میمونہؓ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن صبح کواٹھے۔ چپ چپ(جیسے کوئی رنجیدہ ہوتا ہے ) میں نے عرض کیا یارسول اللہ آج میں نے آپ کی شکل ایسی دیکھی کہ آج تک ویسی نہیں دیکھی نہیں تھی ۔آپ نے فرمایا جبرائیل علیہ السلام نے مجھ سے اس رات ملنے کاوعدہ کیا تھامگرنہیں ملے اور بخدا انہوں نے کبھی وعدہ خلافی نہیں کی ہے ۔ حضرت میمونہ کہتی ہیں کہ پھرسارا دن آپ اسی طرح رہے ۔ اس کے بعد آپ کے دل میں خیال آیاتو ایک کتے کابچہ جوہمارے ڈیرے میں تھاوہ نکال کرباہرکیا گیا۔پھرآپ نے پانی لیا اورجہاں وہ کتابیٹھا تھا وہاں پانی چھڑ ک دیا۔جب شام ہوئی توجبرائیل علیہ الصلوٰۃ والسلام آئے۔ آپ نے فرمایاتم نے مجھ سے گذشتہ رات کوآنے کاوعدہ کیا تھا ۔انہوں نے کہاہاں لیکن ہم اس گھرمیں نہیں جاتے جس میں کتا ہویامورت۔ پھراسی صبح کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کے قتل کاحکم دے دیا۔یہاں تک کہ آپ نے چھوٹے باغ کے کتے کو بھی قتل کرادیا، مگربڑ ے باغ کے کتے کو چھو ڑ دیا ۔ (مطلب یہ کہ بڑ ے باغوں کی رکھوالی کرنا انسانوں کے لیے بہت مشکل ہے اس لیے ان کی رکھوالی کے کتوں کو چھوڑ دیا، البتہ چھوٹے باغوں کی رکھوالی کے کتوں کو قتل کرادیا گیا)۔‘‘ (مسلم ، رقم3928)

اس روایت میں پورا واقعہ جس طرح بیان ہوا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مدینہ اور اس کے اطراف میں کتوں کے قتل عام کا واقعہ براہ راست فرشتوں کے گھر وں میں نہ آنے کے معاملے کے ساتھ جڑ ا ہوا ہے ۔قرآن کریم نے جگہ جگہ یہ بات بیان کی ہے کہ ہر شخص کے ساتھ فرشتے ہر وقت رہتے ہیں (مثلاً انفطار82: 10۔12)۔ اس لیے حضرت جبریل کے جملے کا یہ مطلب نہیں ہو سکتا کہ کتوں کی وجہ سے فرشتے کہیں آتے جاتے نہیں ۔ہمارے نزدیک یہ کتوں کے ذریعے سے پھیلنے والی کسی متوقع وبا سے اہل ایمان کو بچانے کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو متنبہ کیا گیا تھا۔احادیث میں واقعات راویوں کے ذریعے سے ہم تک منتقل ہوتے ہیں اس لیے بارہا ایسا ہوتا ہے کہ کوئی بات بیان ہونے سے رہ جاتی ہے ۔ احادیث میں وبا والی بات بیان نہیں ہوئی ، لیکن دیگر احادیث کے مطالعے اورقرائن سے اندازہ ہوتا ہے کہ مدینہ میں پائے جانے والے ایک خاص نسل کے کتے جن کا رنگ سیاہ تھا، ان میں کوئی ایسی وباپھیل چکی تھی جو ان سے دیگر کتوں اور پھر انسانوں میں پھیل کر ہولناک جانی نقصان کا سبب بن سکتی تھی ۔ چنانچہ ان سیاہ کتوں کو شیطان قرار دے کر خاص طور پر مارنے کا حکم دیا گیا اور باقی کتوں کو اس امکان کی وجہ سے مارا گیا کہ ان تک جراثیم منتقل نہ ہوگئے ہوں ۔بعد میں عمومی طور پر کتوں کو مارنے سے روک دیا گا سوائے اس خاص نسل کے کتوں کے۔ مزید احتیاط کے طور پر کتوں کی خرید و فروخت اور ان کو پالنے کی سخت حوصلہ شکنی کی گئی اوراس کے لیے اعمال کا اجر کم ہونے اور فرشتوں کے گھر میں نہ آنے جیسی مثالوں سے کام لیا گیا۔

اس روشنی میں دیکھیے تو معلوم ہو گا کسی جانور کو ماردینے جیسا سخت حکم رحمت للعالمین انسانوں کو ایذا سے بچانے کے علاوہ کسی اور وجہ سے نہیں دے سکتے ۔معاملہ اگر فرشتوں کے گھر میں آنے کا ہوتا تو جس وقت حضور نے اپنے گھر سے کتے کو نکالا تھا تو بات ختم ہوجانی چاہیے تھی۔ مدینہ بھر اور اس کے اطراف کے کتوں کو مارنے ، ان میں سے بعض کو شیطان قرار دینے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی، سوائے اس کے جو ہم نے اوپر بیان کی۔

کتوں کے معاملے کو قرآن کریم کی روشنی میں دیکھنے اور تمام احادیث کو سامنے رکھ کر جو بات سامنے آتی ہے وہ ، ہماری ناقص رائے میں یہی ہے کہ کتا دیگر جانوروں کی طرح ایک عام جانور ہے ۔اس کے پالنے یا نہ پالنے کا فیصلہ آپ خود کیجیے۔ دین اس حوالے سے آپ کو پابند نہیں کرتا۔البتہ دین کا مقصود پاکی ہے ۔ بعض کتے چاٹ لینے کی عادت کی وجہ سے چیزوں کی ناپاکی اور بعض اوقات بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں ۔ ان پہلوؤں کا خیال کر لینا چاہیے ۔ یاد رہے کہ احادیث میں اس برتن کو جس میں کتے نے منہ مارا ہو تین بار دھونے کے حکم کی وجہ بھی کراہت کو دور کرنا ہے نہ کہ کتے کی ناپاکی کو۔

مجیب: Rehan Ahmed Yusufi

اشاعت اول: 2016-01-22

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading