سوال
عام طور پر مسلمان بالخصوص پاکستانی مسلمان یہ کہتے ہیں کہ گو کہ ہم اپنے گنا ہوں کے باعث جہنم میں جائیں گے لیکن بس چند دنوں کے لیے اور پھر اپنے گنا ہوں کی سزا پانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کی بدولت ہم جنت میں داخل کر دیے جائیں گے۔ میں نے قرآن کا مطالعہ کیا ہے مگر اس میں ایسی کوئی بات نہیں پڑھی، بلکہ میں نے تو یہ پڑھا ہے کہ سب سے پہلے یہ خیال یہودیوں کے اندر پیدا ہوا لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر اس کی تردید فرمادی کہ کیا تم نے اللہ سے ایسا کوئی عہد کر رکھا ہے کہ اللہ اس کی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔ براہِ مہربانی ذرا اس معاملے کی وضاحت فرمادیں؟
جواب
آپ کی یہ بات بالکل درست ہے کہ یہودیوں کی طرح مسلمانوں میں بھی یہ بات عام ہو چکی ہے کہ وہ چند دن کے لیے جہنم میں جائیں گے اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ انھیں جہنم سے نکال لیں گے جبکہ قرآن کریم اس بات سے بالکل خالی ہے کہ اللہ تعالیٰ روز قیامت مسلمانوں کو ایسی کسی خصوصی رعایت سے نوازیں گے۔ قیامت کا دن عدل کا دن ہے۔ اس روز سارے فیصلے عدل کے مطابق ہوں گے ۔ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی کریم و رحیم ہستی کی رحمت کا ظہور بھی ہو گا ۔قرآن کریم نے سزا و جزا کے قانون کو جس طرح بیان کیا ہے اس کو قدرے تفصیل کے ساتھ نکات کی شکل میں ہم ذیل میں بیان کیے دیتے ہیں:
۱) حق کے واضح ہوجانے کے بعد جو لوگ تکبر اور سرکشی کا مظاہر ہ کریں ان کا انجام ابدی جہنم ہے ۔یہ لوگ چاہے اللہ کی کتاب اور ا س کے پیغام کے حاملین ہوں یا شرک کو اپنا دین قرار دیتے ہوں ، اگر حق ان پر واضح ہوا اور محض اپنی سرکشی کی بنا پر یہ کفر میں مبتلا ہوئے اور حق کی مخالفت اور عناد پر آمادہ ہوگئے تو ان کا انجام ابدی جہنم ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’کیا انہیں علم نہیں کہ جواللہ اوراس کے رسول کی مخالفت کرے گا اس کے لیے جہنم کی آگ ہے ، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، یہ بہت بڑ ی رسوائی ہے ۔‘‘ (توبہ 9: 63)
’’بے شک اہل کتاب اورمشرکین میں سے جنہوں نے کفرکیاوہ دوزخ کی آگ میں پڑ یں گے ، اسی میں ہمیشہ رہنے کے لیے ۔یہی لوگ بدترین خلائق ہیں ۔‘‘ (بینہ98: 6)
’’ذرا ان کوتودیکھوجواللہ کی آیات کے باب میں کٹ حجتی کرتے ہیں ، وہ کہاں پھیردیے جاتے ہیں !جنہوں نے اللہ کی کتاب کو جھٹلایا اوران چیزوں کوبھی جن کے ساتھ ہم نے اپنے رسولوں کو بھیجا۔ پس وہ عنقریب جانیں گے !جبکہ ان کی گردنوں میں طوق ہوں گے اور (ان کے پاؤں میں )زنجیریں ہوں گی۔وہ گرم پانی میں گھسیٹے جائیں گے ، پھرآگ میں جھونک دیے جائیں گے ۔پھران سے پوچھا جائے گا: کہاں ہیں وہ جن کوتم اللہ کے سواشریک ٹھہراتے تھے ؟وہ کہیں گے :وہ سب ہم سے کھوئے گئے ، بلکہ پہلے ہم کسی چیز کو بھی نہیں پوجتے رہے ۔ اس طرح اللہ کافروں کے حواس گم کر دے گا۔یہ اس سبب سے کہ تم زمین میں ناحق اتراتے اوراکڑ تے رہے ۔جہنم کے دروازوں میں داخل ہو، اس میں ہمیشہ رہنے کے لیے !کیاہی براٹھکانا ہے متکبروں کا!‘‘
(مومن40: 69۔76)
’’اورجن لوگوں نے کفرکیا ہو گاوہ گروہ درگروہ جہنم کی طرف ہانک کر لے جائے جائیں گے۔ یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس حاضر ہوں گے اس کے دروازے کھول دیے جائیں گے اوراس کے داروغے ان سے پوچھیں گے کہ کیاتمھارے پاس، تمہی میں سے رسول، تمھارے رب کی آیتیں سناتے اورتمھارے اس دن کی ملاقات سے ڈراتے نہیں آئے ؟(وہ کہیں گے :ہاں !)آئے تو سہی! پر کافروں پر کلمۂ عذاب پورا ہوکر رہا۔کہاجائے گاکہ جہنم کے دروازے میں داخل ہوجاؤ، اس میں ہمیشہ رہنے کے لیے !پس کیاہی براٹھکانا ہے متکبروں کا! ‘‘ (زمر39: 71۔72)
ان لوگوں کی سزا کا ایک پہلو یہ ہے کہ ان کے اعمال چاہے کتنے ہی اچھے کیو ں نہ ہوں ، برباد کر دیے جائیں گے ۔
’’ان لوگوں کے اعمال کی تمثیل، جنہوں نے اپنے رب کے ساتھ کفرکیا، یہ ہے کہ جیسے راکھ ہو جس پر آندھی کے دن بادتندچل جائے ۔ جو کچھ انہوں نے کمائی کی ہو گی اس میں سے کچھ بھی ان کے پلے نہیں پڑ ے گی۔یہی دورکی گمراہی ہے ۔‘‘ (ابراہیم14: 18)
’’مشرکین کویہ حق نہیں پہنچتاکہ وہ مساجدالہٰی کا انتظام کریں درآنحالیکہ وہ خوداپنے کفرکے گواہ ہیں۔ ان لوگوں کے سارے اعمال ڈھے گئے اوردوزخ میں ہمیشہ رہنے والے تویہی ہیں ۔‘‘(توبہ9: 17)
اس گروہ کا سرخیل خود ابلیس ملعون ہے ۔اس نے بھی تکبر کیا اور انجام یہ ہوا کہ اللہ کی لعنت اور جہنم دونوں کا مستحق ہوا۔
’’تو تمام فرشتوں نے اس کوسجدہ کیا بجز ابلیس کے ۔اس نے گھمنڈکیا اورانکارکرنے والوں میں سے بن گیا۔پوچھا:اے ابلیس! اس چیز کوسجدہ کرنے سے تجھے کیاچیزمانع ہوئی جومیں نے اپنے ہاتھوں سے پیداکی؟یہ تونے تکبرکیایاتوکوئی برترہستی ہے ؟اس نے جواب دیا:میں اس سے برتر ہوں۔ تو نے مجھے آگ سے پیداکیا ہے اوراس کومٹی سے پیداکیاحکم ہوا:تویہاں سے نکل!کیونکہ توراندۂ درگاہ ہوا اورتجھ پرمیری لعنت ہے ، جزاکے دن تک!اس نے کہا:اے میرے رب!مجھے مہلت دے اس دن تک کے لیے جس دن لوگ اٹھائے جائیں گے۔ ارشاد ہوا:تجھ کومہلت دی گئی!وقت معین تک کے لیے !اس نے کہا:تیری عظمت کی قسم!میں ان سب کوگمراہ کر کے رہوں گابجز تیرے ان بندوں کے جن کوتونے ان میں سے خاص کر لیا ہوارشادہوا:پس حق یہ ہے !اورمیں حق ہی کہتا ہوں !کہ میں تجھ سے اوران تمام لوگوں سے ، جو ان میں سے تیری پیروی کریں گے ، جہنم کو بھر دوں گا!‘‘ (ص38: 73۔85)
۲) دوسراگروہ ان لوگوں کا ہے جو بظاہر متکبر، سرکش اور مخالف حق نہیں ہوتے ۔ مگر یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں مبتلا ہوکر معصیت کو اپنا شعار بنالیتے ہیں اورگناہ ان کی زندگی کا احاطہ کر لیتا ، ان لوگوں کا نجام بھی ابدی جہنم ہے ۔عین ممکن ہے کہ یہ لوگ مسلمان بھی ہوں ، زبان سے اللہ رسول اور نیکی کا نام بھی لیتے ہوں ۔تاہم اس سے کچھ فرق نہیں پڑ تا ، اپنے زمانے کی مسلمان قوم یہود کو مخاطب ہوکر اللہ تعالیٰ نے یہی پیغام دیا تھا:
’’اوروہ کہتے ہیں کہ ان کو دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی مگر صرف گنتی کے چند دن۔پوچھو: کیا تم نے اللہ کے پاس اس کے لیے کوئی عہد کرالیا ہے کہ اللہ اپنے عہد کی خلاف ورزی نہیں کرے گایا تم اللہ پر ایک ایسی تہمت باندھ رہے ہو جس کے بارے میں تمھیں کچھ علم نہیں ۔ کیوں نہیں ، جس نے کوئی بدی کمائی اور اس کے گناہ نے اسے اپنے گھیرے میں لے لیا وہی لوگ دوزخ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔‘‘ (بقرہ2: 80۔81)
۳) یہ افراد اور ان کے مستقل رویوں کا معاملہ تھا۔ یعنی تکبر، سرکشی، غفلت و معصیت وغیرہ۔ مگر کچھ جرائم بھی ایسے ہیں جو اپنی ذات میں اتنے بڑ ے ہیں کہ ان کا ارتکاب کرنے والے کی سزا ابدی جہنم مقرر کی گئی ہے ۔مثلاً وراثت کے احکام دینے کے بعدیہ بیان کیا گیا ہے کہ جو ان حدود کی خلاف ورزی کرے گا اس کی سزا ابدی جہنم ہے ۔
یہ اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حدیں ہیں ۔اورجواللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرتے رہیں گے اللہ ان کوایسے باغوں میں داخل کرے گاجن میں نہریں جاری ہوں گی، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے اوریہ بڑ ی کامیابی ہے اورجواللہ اوراس کے رسول کی نافرمانی کریں گے اوراس کی مقرر کردہ حدودسے تجاوزکریں گے ، ان کوایسی آگ میں داخل کرے گاجس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اوران کے لیے ذلیل کرنے والاعذاب ہے (نساء4: 13۔14)۔ اسی طرح قتلِ مومن کی سزا بھی ابدی جہنم بیان ہوئی ہے (نساء4: 93)۔ ایک اور مقام پر قتل ناحق، زنا اور شرک کی سزا بھی یہی بیان ہوئی ہے (فرقان25: 68۔69)۔
۴) یہ تینوں گروہ بالیقین ابدی طور پر جہنم میں جائیں گے البتہ قرآن میں ایک اشارہ ایسا موجود ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ معافی کا ایک امکان موجود ہے ۔ مگر اس معافی کا امکان صرف اور صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو اللہ تعالیٰ کی توحید کو دل سے مانتے ہوں گے ۔ سورۂ نساء میں دو جگہ ایک ہی بات اس طرح بیان ہوئی ہے :
’’بے شک اللہ تعالیٰ اس چیز کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک ٹھہرایا جائے ، اس کے سوا جو کچھ ہے ، جس کے لیے چاہے گا بخش دے گا۔‘‘ (نساء4: 48 ، 116)
محسوس یہ ہوتا ہے کہ اوپر بیان کردہ تین گروہوں میں سے پہلے دو گروہ معافی کے اس امکان سے بالکل خارج ہیں ۔ اس لیے کہ تکبر اور حق کی مخالفت انسان کو خود اللہ تعالیٰ کے بالمقابل کھڑ ا کر دیتی ہے ۔اسی طرح گناہ جب زندگی کا احاطہ کر لیں اور غفلت و معصیت میں شب و روز گزریں تو خداکو ماننا اور نہ ماننا برابر ہوجاتا ہے ۔ایسے لوگوں میں نہ کبھی احساس بندگی پیدا ہوتا ہے اور نہ احساس شرمندگی ۔ البتہ اس کا ایک امکان ہے کہ تیسرے گروہ میں سے کچھ لوگوں کو، جن سے ایسے بڑ ے جرائم کا ارتکاب ہوا ہو جن کی سزا ابدی جہنم ہے ، خدا خوفی کا کوئی احساس پیدا ہو جائے اور اس کے بعد کچھ اور نہ سہی وہ کم از کم گناہ کو بار بار کرنے سے سے باز آجائیں ۔ گو یہ احساس اتنا شدید نہ ہو کہ توبہ اور ندامت کی ان کیفیات میں ڈھل جائے جس کے بعد آدمی کی زندگی بدل جاتی ہے اور وہ ہر غلطی کا ازالہ کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے ۔
تیسرے گروہ کے ہر فرد کو نہیں ، بلکہ ان میں سے جن کو یہ احساس پیدا ہوا اور وہ گناہ سے باز آ گئے ، ان کو جرائم کی سزا توبہرحال ملے گی۔ اس لیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے عدل کا تقاضا ہے ۔وہ جہنم میں جائیں گے اور اپنے جرائم کی پاداش میں وہاں سزا بھگتیں گے ۔تاہم ان لوگوں میں سے کسی کے دل میں اگر توحید سے وابستگی کا جذبہ ہوا تو اللہ تعالیٰ کی رحمت ایسے لوگوں کو سورۂ نسا کی آیت کے تحت آخر کار معاف کر دے گی۔معافی کی یہ بات متعدد صحیح احادیث میں بیان ہوئی ہے ۔ مثلاً ایک روایت کے الفاظ اس طرح ہیں :
’’حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہت سی جماعتیں اپنے گنا ہوں کی وجہ سے آگ کا عذاب بھگت کر سیا ہ ہوجائیں گی۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کو اپنی رحمت سے جنت میں داخل کر دے گا۔ ان لوگوں کو جہنمی کہا جائے گا۔‘‘(بخاری ، رقم7012)
ہم نے جو کچھ بیان کیا ہے اس میں کسی مجرم ، کسی غافل، کسی متکبر اور سرکش کے لیے کوئی خوش خبری نہیں ۔جس معافی کا امکان بیان کیا گیا ہے وہ ہرشخص کے لیے نہیں ہے اور نہ ہر گناہ کے لیے ہے ۔مسلمانوں کے لیے محفوظ راستہ یہ ہے کہ وہ قرآن کریم کی ایمان و عمل صالح کی دعوت کو اختیار کریں ۔ اللہ تعالیٰ سے اپنے گنا ہوں کی معافی مانگتے رہیں ۔ کسی بڑ ے جرم کا غلطی سے کبھی ارتکاب ہوجائے تو فوراَ توبہ کر کے اصلاح کا راستہ اختیار کریں ۔ یہ قیامت کے دن نجات کا واحد ممکنہ راستہ ہے ۔اس کے علاوہ ہر راستہ اللہ تعالیٰ کی گرفت کی سولی پر لٹکنے کے مترادف ہے ۔جو بدنصیب اس سولی پر ایک دفعہ آ گیا، اس کے لیے پھر کوئی خیر نہیں بچے گا۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس انجام سے محفوظ فرمائے ۔ آمین
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2016-01-29