شفاعت کا صحیح تصور

53

سوال

مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ روزِ قیامت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت فرمائیں گے ۔قرآن و سنت کی روشنی میں شفاعت کا صحیح تصور کیا ہے؟

جواب

شفاعت کے بارے میں استاذ گرامی جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنی کتاب میزان کے باب ایمانیات میں تفصیل کے ساتھ کلام کیا ہے ۔ ہم متعلقہ حصہ آپ کے سامنے پیش کیے دیتے ہیں ۔وہ نبیوں پر ایمان کے ضمن میں "نبی کی شفاعت” کے زیر ِعنوان لکھتے ہیں :

’’نبی کا اصلی فریضہ انذاروبشارت ہے ، مگراس کے ساتھ وہ خداکے حضورمیں بندوں کی شفاعت بھی کرتا ہے ۔ شفاعت کیا ہے ؟بندہ جب مغفرت چاہتا ہے تو اس کے ساتھ ہوکریہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی درخواست ہے ۔شفاعت کا اصل مفہوم یہی ہے ۔لہذابندے کی طرف سے توبہ و استغفارکے بغیراس کاکوئی تصور نہیں ہے ۔شفاعت کرنے والا استغفارمیں فردِثانی اورمغفرت چاہنے والے کی زبان ہوتا ہے اوردعاومناجات اورخضوع وتذلل میں اس کاوسیلہ بن جاتا ہے۔ ارشاد فرمایا ہے :

’اورجب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ، اللہ کارسول تمھارے لیے مغفرت کی دعا کرے تو سر جھٹکتے ہیں اور تم دیکھتے ہوکہ وہ بڑ ے غرورکے ساتھ اعراض کرتے ہیں ۔‘ (منافقون63: 5)

اس کاپہلاموقع اس وقت آتا ہے ، جب بندہ ایمان لاتا ہے اورنبی اس کے لیے استغفارکرتا ہے ۔ دوسراموقع وہ ہوتا ہے ، جب وہ گناہ کربیٹھتا ہے اورتائب ہوکرخداسے مغفرت چاہتا ہے ۔زمانۂ رسالت کے منافقین کواللہ تعالیٰ نے ایک جگہ نصیحت فرمائی ہے کہ وہ اگراپنے گنا ہوں کی معافی چاہتے ہیں توخود بھی مغفرت کی دعا کریں اورپیغمبرسے بھی اس کی درخواست کریں ۔ان کایہ رجوع خدا کی رحمت کوان کی طرف متوجہ کرنے کاباعث بنے گا۔فرمایا ہے :

’اوراگرانھوں نے یہ طریقہ اختیارکیا ہوتاکہ جب یہ اپنی جان پرظلم کربیٹھے تھے توتمھاری خدمت میں حاضرہوتے اوراللہ سے معافی مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے معافی چاہتاتو یقینا اللہ کوتوبہ قبول کرنے والا اورمہربان پاتے ۔‘ (نساء4: 64)

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جگہ جگہ بندوں کوتوبہ واستغفارکی دعوت دی ہے ۔فرمایا ہے کہ میرے بندو، تم نے اپنی جانوں پرظلم ڈھایا ہے تومیری رحمت سے مایوس نہ ہو۔تمھاراپروردگارغفورورحیم ہے ، تم اس کی طرف رجوع کرو گے تو وہ تمھارے تمام گنا ہوں کوبخش دے گا۔یادرکھو، ایمان والے اس کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہوتے(زمر39: 53)۔ پھرت وبہ و استغفار کے لیے اپنی یہ سنت بھی واضح کر دی ہے کہ گناہ کے بعدجتنی جلدی ممکن ہو، توبہ کر لینی چاہیے ۔اس لیے کہ اللہ پرصرف انھی لوگوں کی توبہ کاحق قائم ہوتا ہے جوجذبات سے مغلوب ہوکرکوئی گناہ کربیٹھتے ہیں ، پھر فوراً توبہ کر لیتے ہیں ۔ان لوگوں کی توبہ اللہ کے نزدیک کوئی توبہ نہیں جوزندگی بھرگنا ہوں میں ڈوبے رہتے ہیں اورجب دیکھتے ہیں کہ موت سر پر آن کھڑ ی ہوئی ہے توتوبہ کاوظیفہ پڑ ھنے لگتے ہیں (نساء4: 17۔18)۔

اس میں غورکیجیے توان لوگوں کے حال پراللہ تعالیٰ نے خاموشی اختیارفرمائی ہے جوگناہ کے بعدجلد ہی توبہ کر لینے کی سعادت توحاصل نہیں کرسکے ، لیکن اتنی دیربھی نہیں کی کہ موت کاوقت آن پہنچا ہو۔ یہی لوگ ہیں جن کے بارے میں شفاعت کی توقع ہو سکتی ہے ۔چناچہ قرآن نے اس کا اثبات کیا ہے ، لیکن اس کے ساتھ ان غلط تصورات کی تردیدبھی پوری صراحت سے کر دی ہے جولوگوں نے شفاعت کے بارے میں قائم کر رکھے ہیں اورجن سے خداکے عدل اورجزاوسزاکے وجوب کی نفی ہوتی ہے ۔

پہلی بات یہ فرمائی ہے کہ شفاعت کا اختیارصرف اللہ تعالیٰ کوہے ۔اس کی اجازت کے بغیرکوئی شخص بھی شفاعت نہیں کرسکتا۔ یہاں تک کہ اس کے مقرب فرشتے بھی اپنی طرف سے آگے بڑ ھ کر کوئی بات نہیں کہہ سکتے ۔اس لیے پہلے خداکوراضی کرناضروری ہے تاکہ شفاعت کا اذن ملے اوروہ قبول بھی ہوجائے :

’کیا انھوں نے خداکوچھوڑ کر دوسروں کوشفیع بنارکھا ہے ؟ان سے کہو:کیاوہ شفاعت کریں گے ، خواہ ان کے اختیار میں کچھ نہ ہواوروہ کچھ نہ سمجھتے ہوں ؟کہدوکہ شفاعت تمام تر اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ زمین وآسمان کی بادشاہی اسی کی ہے ۔پھرتم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے ۔‘ (زمر39: 43۔44)

’اوریہ کہتے ہیں کہ رحمن کے اولادہے ، سبحان اللہ، وہ تو(اس کے ) مقرب بندے ہیں ۔وہ اس کے حضور کبھی بڑ ھ کرنہیں بولتے اوراس کے حکم ہی کی تعمیل کرتے ہیں ۔‘ (انبیاء21: 26۔27)

دوسری بات یہ فرمائی ہے کہ اذن الہٰی کے بعدبھی اسی کے بارے میں زبان کھولنے کی اجازت ہو گی جس کے لیے اللہ پسندفرمائے گا۔کوئی شخص اپنی مرضی سے کسی کے متعلق کوئی بات نہ کرسکے گا:

’وہ ان کے آگے اورپیچھے کی ہرچیزسے واقف ہے ، اوروہ کسی کی شفاعت نہ کریں گے ، سوائے اس کے جس کے حق میں اللہ راضی ہو، اوروہ اس کے خوف سے ڈرے رہتے ہیں ۔‘ (انبیاء21: 28)

’اس روز شفاعت نفع نہ دے گی، الایہ کہ کسی کورحمن اس کی اجازت دے اورکسی کے لیے کوئی بات سنناپسندکرے ۔وہ ان کے آگے اورپیچھے کی ہرچیزسے باخبرہے اوران کاعلم اس کا احاطہ نہیں کر سکتا۔‘ (طٰہٰ20: 109۔110)

تیسری بات یہ فرمائی ہے کہ جس کے لیے اللہ پسندفرمائے گا، اس کے متعلق بھی وہی بات کہی جائے گی جوہرلحاظ سے صحیح ہو گی:

’(اس دن جب)وہی بولیں گے جنھیں رحمن اجازت دے اوروہ صحیح بات کہیں ۔‘ (نبا78: 38)

شفاعت کے بارے میں یہ قرآن کانقطۂ نظرہے ۔اس سلسلے کی روایتوں کواسی روشنی میں دیکھنا چاہیے اوراس سے کوئی چیز متجاوزنظر آئے تواسے راویوں کے تصرفات سمجھ کرنظراندازکر دیناچاہیے ۔‘‘

(میزان ، ص 146۔149)

مجیب: Rehan Ahmed Yusufi

اشاعت اول: 2016-01-29

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading