رہن پر مکان لینا اور سود سے متعلق جاب

23

سوال

میں UK میں ایک Mortgage (رہن پر مکان خریدنے کا) ایڈوائزر ہوں۔ سود کے لین دین سے میرا کوئی براہِ راست واسطہ نہیں ہے اور میں صرف ان خدمات کا معاوضہ وصول کرتا ہوں جو میں لوگوں کو مکان خریدنے کے سلسلے میں مشاورت اور معاونت کی شکل میں فراہم کرتا ہوں ۔لیکن میری فیملی کا خیال ہے کہ میں سود کے سلسلے میں دی گئی قرآنی تعلیمات کی خلاف ورزی کر رہا ہوں ۔لہٰذا آپ اس حوالے سے میری راہ نمائی فرمائیں؟

آج اگر ہم سود کو معاشی سرگرمیوں سے بے دخل کر دیں تو تمام معاشی سرگرمیاں ایک دم ٹھپ ہو کر اور تمام کمرشل مارکیٹس ویران ہوکر رہ جائیں ، تو پھر آخر قابلِ قبول حل کیا ہو گا؟ مکان کے حصول کے لیے اگر ہم اسلامک Mortgages کی صورتوں کی طرف رجوع کرتے ہیں تو وہ بہت زیادہ مہنگی اور پیچیدہ ہیں اور اسی لیے زیادہ تر مسلمان ان کی طرف نہیں جاتے ، بلکہ میرا تو خیال ہے کہ شاید یہ لوگوں کو اسلام سے بد ظن کرنے کے لیے متعارف کرائی گئیں ہیں ۔ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اگر مسلمان سود کی وجہ سے مالیاتی اداروں کی ملازمتیں ترک کر دیں تو پھر اس فیلڈ میں غیر مسلم دنیا کا مقابلہ کیسے کر سکیں گے ، جبکہ آج تو کسی اسٹیٹ کی طاقت کا اصل پیمانہ بھی اس کی معاشی قوت و استحکام ہے ؟

جواب

آپ کے سوال کے دو پہلو ہیں ۔ ایک یہ کہ دنیا بھر میں رائج مالیاتی نظام سے سود کی آلائش کو کیسے نکالا جائے اور دوسرا یہ کہ مسلمانوں میں سے جو لوگ ایسے اداروں میں ملازمت کر رہے ہیں یا اس نظام کا حصہ ہیں ، کیا انھیں اس نظام سے الگ ہوجانا چاہیے؟
جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے تواس کا جواب ذراتفصیل طلب ہے ۔ رہن (Mortgage) پر مکان لینا مغربی ممالک میں مکان کے حصول کا عام طریقہ ہے ۔ اس طریقے میں بینک یا کوئی اور مالیاتی ادارہ مکان کی خریداری کے لیے رقم بطور قرض فراہم کرتا ہے اور خریدا ہوا مکان ہی قرض کی مکمل ادائیگی تک بطور رہن رکھ لیتا ہے ۔بینک اور مقروض کے درمیان ایک معاہدہ طے پاتا ہے جس میں ایک متعین مدت(عام طور پر تیس برس ) میں بینک کو قرض کی رقم اور اس پر سود ماہانہ بنیادوں پر ادا کیا جاتا ہے ۔ اس ماہانہ رقم میں ابتدائی عرصہ میں سود زیادہ ہوتا ہے اور معاہدے کے اختتام کے قریب سود کم اور اصل رقم کی مقدار زیادہ ہوجاتی ہے ۔معاہدہ کے دوران میں مقروض اگر قسطیں ادا کرنے میں ناکام ہوجائے تو بینک جائیداد فروخت کر کے اپنی رقم وصول کر لیتا ہے ۔

ہمارے اہل علم اس طریقے کو سود کے عنصر کی بنا پر ناجائز قرار دیتے ہیں ۔اس مسئلے کے حل کے لیے اسلامک فائنینسنگ کے جو طریقے سامنے آ رہے ہیں ان میں بھی قباحتیں موجود ہیں ۔ ایک یہ کہ لوگوں کو یہ عام طریقے سے زیادہ مہنگا پڑ تا ہے ، دوسرے اس میں قرض فراہم کرنے والے اداروں کا منافع کم و بیش انھی بنیادوں پر متعین ہوتا ہے جن پر سود کا تعین کیا جاتا ہے ۔جس پر لوگ سوال کرتے ہیں کہ اسلامک فائنینسنگ کے اس عمل میں سوائے ہاتھ گھما کر ایک پیچیدہ طریقے سے کان پکڑ نے کے علاوہ اور کیا ہوا ہے ؟

استاذگرامی جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی تحقیق کے مطابق دین اسلام نے جس چیز کو سود قرار دیا اور جس سے ظلم وجود میں آتا ہے اس کا اطلاق صرف ان چیزوں پر ہوتا ہے جو استعمال کے ساتھ ہی اپنا وجود کھو دیتی ہیں ۔ مثلاً سود پر اگر نقد روپیہ یا اجناس وغیرہ لیے گئے ہیں تو یہ استعمال کے ساتھ ہی اپنا وجود کھودیں گیں ۔ اس کے بعد مقروض کو انھیں دوبارہ نئے سرے سے پیدا کر کے اس پر اضافی رقم بطور سود دینی ہو گی۔ یہی وہ ظلم ہے جسے اسلام روکنا چاہتا ہے ۔

فائنینسنگ کے ذریعے سے مکان یا گاڑ ی وغیرہ کے حصول کا معاملہ قدرے مختلف ہے ۔ اس میں قرض لینے والا قرض کی رقم سے ایک چیز کا نہ صرف مالک بنتا ہے ، بلکہ اس کا مستقل استعمال کرتا ہے ۔قرض کا روپیہ صرف تو ہو گیا مگر اسے ایک ایسی چیز کا مالک بنا گیا جو اس کے استعمال میں رہتی ہے اور وہ مستقبل میں اس کا مالک بھی بن جاتا ہے ۔اس کی شکل یہ ہوتی ہے کہ قرض کی مکمل ادائیگی کے بعد مقروض اس شے کا مالک بن کر اسے اپنے استعمال میں رکھتا ہے ۔ اس طرح غور کیا جائے تو اس پر ظلم نہیں ہوتا ، بلکہ وہ وسائل کے بغیر اپنی ضرورت کی چیز کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے ۔ البتہ سوال یہ ہے کہ قرض خواہ کو کس بنیاد پر آمادہ کیا جائے کہ وہ فائنینسنگ کی رقم فراہم کرے۔ استاذگرامی کے نزدیک اس کا جواب یہ ہے کہ کرایہ داری کے اصول پر اگر یہ معاہدہ کر لیا جائے تو سو دکے بجائے کرایہ کی شکل میں سرمایہ فراہم کرنے والے کو (چاہے وہ کوئی قرض خواہ ہو یا کوئی بینک)اپنا منافع مل جائے گا اور معاہدے کے اختتام پر جائیداد کی ملکیت مقروض کو منتقل کر دی جائے گی۔ اس طرح فریقین کا مفاد محفوظ رہے گا۔ ظاہر ہے کہ جو تجویز پیش کی جا رہی ہے اس میں بعض عملی مسائل آ سکتے ہیں۔ لیکن ماہرین معیشت اگر اسلام میں سود کی حرمت کے بنیادی اصول پر واضح ہوجائیں تو ان عملی پیچیدگیوں کو حل کرنا زیادہ بڑ ا مسئلہ نہیں ہے ۔

رہا دوسرا پہلو تو موجودہ صورتحال میں وہ ساری ملازمتیں جن میں سودی معاملات میں براہِ راست معاونت کا عنصر شامل ہوتا ہے ان سے تو ممکن حد تک اجتناب ہی کرنا چاہیے۔جو لوگ ایسی ملازمتوں سے منسلک ہیں ، انھیں چاہیے کہ وہ معاش کا کوئی بہتر سلسلہ تلاش کریں ۔ وہ اگر اپنے حالات کی بنا پر عزیمت کی یہ راہ اختیار نہیں کرسکتے تو پروردگار کے حضور رجوع کر کے اپنا عذر اس کی کریم بارگاہ میں پیش کرتے رہیں ۔ ساتھ ہی اپنے مال میں سے کثرت کے ساتھ انفاق کریں ۔ امید یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص کی بنا پر در گزر کا معاملہ فرمائے گا۔

البتہ سودی اداروں میں دوسری پبلک سروسز کی جاب کرنے میں اصلاً کوئی حرج نہیں ہے یا زیادہ سے زیادہ ان کے بارے میں ناپسندید گی کی رائے ہی دی جا سکتی ہے ۔جو لوگ ایسی ملازمتوں سے منسلک ہیں ، وہ اگر معاش کا کوئی دوسرا بہتر سلسلہ تلاش کر سکیں تو اچھی بات ہے۔ لیکن اگر وہ اپنے حالات کی بنا پر ایسا نہیں کرتے تو ان شاء اللہ پروردگار کے حضور ان پر کوئی آنچ نہ آئے گی۔

خود آپ اپنے بارے میں یہ اطمینان رکھیے اور اپنی فیملی کو بھی اطمینان دلائیے کہ آپ ہرگز کسی سودی کام میں نہ خود داخل ہیں اور نہ آپ کسی کی اس سلسلے میں معاونت کر رہے ہیں کیونکہ یہ کام ، جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے، اصلاً سود کی ذیل میں نہیں آتا ہے اگرچہ اسے غلطی سے سود ہی کا نام دیا جاتا ہے۔ لہذا آپ سود کے سلسلے میں دی گئی قرآنی تعلیمات کی خلاف ورزی بالکل نہیں کر رہے ہیں ۔

مجیب: Rehan Ahmed Yusufi

اشاعت اول: 2016-01-23

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading