سوال
صوفی ازم کا بنیادی نظریہ کیا ہے؟ ما بعد الطبیعیات (Meta-Physics) ، علمِ کائنات(Cosmology) اور علم النفس (Psychology) کے بارے میں تصوف کے کیا نظریات ہیں؟ (عاصم صاحب)
جواب
تصوف سے متعلق جوباتیں آپ نے دریافت فرمائی ہیں ان کے جواب سے قبل ہم ایک بنیادی بات واضح کرنا چاہتے ہیں ۔لوگ عام طور پر جب صوفی ازم اور تصوف پر بات کرتے ہیں تو ان کے پیش نظر کچھ صوفیا اور بزرگ ہوتے ہیں جوا پنی ذات میں بہت صالح، خدا ترس اور متقی ہوتے ہیں ۔ خالق کی یاد میں مشغول رہنے والے اور مخلوق کے لیے سراسر رحمت صفت ان بزرگوں کے بارے میں لوگ بالعموم محبت اور حسنِ ظن کا تعلق رکھتے ہیں ۔تاہم جب ہم تصوف کے بارے میں کوئی گفتگو کرتے ہیں تو ہمارے پیش نظر یہ بزرگ نہیں ہوتے ، بلکہ تصوف کی وہ روایت ہوتی ہے جسے قرآن و سنت کی روشنی میں پرکھنا بہرحال ہماری ذمہ داری ہے ۔ اس لیے اس حوالے سے ہمارے جواب میں جو تنقید نظر آئے گی وہ تصوف کی علمی روایت پر اور قرآن و سنت کی بنیاد ہی پر ہو گی۔ اس روشنی میں آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:
صوفی ازم
انسان کا شعور ہر دور میں اس سوال کا جواب تلاش کرتا رہا ہے کہ اُس کا اِس کائنات اور اِس کے بنانے والے سے کیا تعلق ہے ۔ اس سوال کا جواب ایک مکمل جواب اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی دن سے اس شکل میں انسانوں کو دے دیا تھا کہ ان کے باپ اور پہلے انسان حضرت آدم کو ایک نبی بنا کر بھیجا گیا ۔اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ اس رہنمائی کی یاددہانی کے لیے ہر قوم میں اور ہر زمانے زمانے میں نبی اور رسول آتے رہے ۔ اس رہنمائی میں اللہ تعالیٰ کی ذات ، صفات اور ان سے تعلق کی درست نوعیت کو بالکل کھول کر بیان کیا گیا تھا۔تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان انبیا کی اس رہنمائی کو فراموش کرتا گیا۔فراموشی اور غفلت کی اس فضا میں انسان نے اپنے طور پر اُن سوالات کی کھوج شروع کر دی جن کے جواب کے لیے یہ رہنمائی عطا کی گئی۔ اس کھوج کی ایک شکل فلسفیانہ افکار کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ ان فلسفیانہ افکار نے مختلف شکلیں اختیار کیں ۔ ان میں ایک شکل وہ تھی جو مذہب سے بہت زیادہ متاثر تھی اور اس میں حقائق کی تلاش عقل کے بجائے باطن کی آوازاور وجدان کی بنیاد پر کی جاتی تھی۔ عقل اور وحی کے بجائے باطنی تجربے ، روحانیت اور وجدان کی بنیاد پر خدا سے تعلق کی یہ تحریک دنیا کے کم و بیش تمام مذاہب میں موجود رہی ہے ۔بعض مذاہب مثلاً بدھ بت کی بنیاد ہی داخلی تجربے اور وجدان پر مبنی اس عالمی تحریک پر رکھی گئی ہے ۔جبکہ بعض مذاہب میں جن میں یہودیت اور مسیحیت جیسے ابراہیمی مذاہب شامل ہیں ، اس کی ایک مستقل روایت موجود رہی ہے ۔ اسلام جب عرب سے نکل کر عجم پہنچا تو نومسلموں کے قبول اسلام کے ساتھ ساتھ یہ عالمی روایت، مسلم معاشرے میں خاموشی سے سرائیت کرگئی ۔اس روایت کو صوفی ازم یا تصوف سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہے کہ تصوف کوئی اسلامی تصور نہیں ۔یہ ایک عالمی تحریک ہے جو اسلام کے ظہور سے بہت پہلے موجود تھا اور اسلام کے ظہور کے بعد جب دیگر مذاہب کے لوگوں کی بہت بڑ ی تعداد مسلمان ہوئی تو ان کے ساتھ تصوف کی یہ تحریک مسلمانوں کے ہاں بھی داخل ہوگئی ۔مسلمانوں کے بڑ ے بڑ ے اہل علم اس سے متاثر ہوئے اوراسے قرآن و حدیث سے باقاعدہ ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگے ۔ تاہم یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ ائمہ اہل تصوف جب خالص علمی انداز میں اپنے نظریات بیان کرنا شروع کرتے ہیں تو صاف معلوم ہوجاتا کہ ان نظریات کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔ استاذ گرامی جاوید احمد صاحب نے اپنی تصنیف ’برھان‘ کے مضمون ’اسلام اور تصوف ‘میں اس بات کو تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے ۔
تصوف کی مابعد الطبیعات (Sufi Metaphysics)
ما بعد الطبیعات کے بارے میں اہل تصوف کی آرا چونکہ قرآنی رہنمائی اور نور نبوت کی روشنی کو نظر انداز کر کے یا ان کے مدعا و مفہوم کو mysticism کے پہلے سے رائج تصورات کے مطابق ڈھال کر تخلیق کی گئی ہیں ، اس لیے ہمیں ان سے اتفاق نہیں ہے ۔ مثلاًما بعد الطبیعات میں ان کا بنیادی نقطۂ نظر وحدۃ الوجود ہے ۔یہ ہندوؤں کی مقدس کتاب اپنشدکے اس نظریہ کی طرح ہے جس کے مطابق دنیا میں وجود کی دوئی (duality)نہیں پائی جاتی ۔ اصل حقیقت اور اصل وجود صرف ’برہما ‘کا ہے ، باقی کائنات ایک فریب (مایا) ہے ۔ وحدۃ الوجودمیں اس بات کو اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ وجود حقیقی(خدا) کے سوا کوئی دوسری چیز اپنا حقیقی وجود نہیں رکھتی اور خدا سے جدا کائنات یا مخلوق کا تصور باطل ہے ۔یہ وہی چیز ہے جسے فلسفے میں Pantheismکہا جاتا ہے ۔ابن عربی لکھتے ہیں :
’’اگرچہ مخلوق، بظاہر خالق سے الگ ہے ، لیکن باعتبار حقیقت خالق ہی مخلوق اور مخلوق ہی خالق ہے ۔ ‘‘
(فصوص الحکم78)
ظاہر ہے کہ اس طرح کے نظریات کا قرآن پاک سے کوئی تعلق نہیں ۔قرآن پاک کی موجودگی میں اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے بارے میں اپنے علم ، مشاہدے اور تجربے سے کچھ بیان کرنا یہ بات ہی اصل میں غلط ہے اور کبھی انسان کو درست نتائج تک نہیں پہنچا سکتی۔ ابن عربی کے اس تصور کے بالمقابل شیخ احمد سرہندی نے وحدۃ الشہود کا تصور پیش کیا۔ تاہم اس میں زیادہ تر اختلاف محض تعبیرات کا ہے ۔ وجود کے بارے میں ان کی رائے مختلف نہیں :
’’ممکن کے لیے وجود ثابت کرنا اور خیر و کمال کو اس سے متعلق ٹھیرانا درحقیقت اسے ذات باری کی مِلک اور مُلک میں شریک کرنا ہے ‘‘ ، (مکتوبات2، مکتوب1)
ان کے نزدیک کائنات کا وجود حقیقی نہیں ، بلکہ وہم کے درجے میں ہے ، اس لیے ایک سالک جب حقیقت تک رسائی پاتا ہے تو وہاں دوئی کا یہ پردہ اٹھ جاتا ہے:
’’توحید شہودی یہ ہے کہ تنہا ذات حق ہی دکھائی دے ۔ یعنی سالک کا مشہود اُس ذات کے سوا کوئی دوسرا نہ ہو‘‘ ، (مکتوبات2، مکتوب43)
ان باتوں کا قرآن کریم سے کیا تعلق۔ وہاں تو ہر قدم پر مخلوق کا مستقل وجود مان کر اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات میں سے ایک مخلوق یعنی انسان سے کلام کرتے ہیں ۔ اگر مخلوق حقیقت میں موجود ہی نہیں تو پیغمبری کارِ عبث اور سزا و جزاکا تصور ایک مذاق ہے ، بلکہ مسیحیوں کا وہ نظریہ عین حق ہے کہ معاذ اللہ ، مسیح خدا ہیں اور خدا مسیح ہے ۔
تصوف کا علم کائنات (Sufi Cosmology)
تصوف کا علم کائنات (Sufi Cosmology) اور اسی طرح ان کا علم النفس (Sufi Psychology) ، ظن و تخمین اور اندازوں کی دنیا ہے ۔یہ اپنے تصورات میں زیادہ تر یونانی فلسفے اور دیگر مذاہب میں پائے جانے والی متصوفانہ روایات سے ماخوذ ہے ۔ ہم آپ کے لیے اس کی چند بنیادی اصطلاحات کا تعارف کر دیتے ہیں تاکہ اس موضوع پر مطالعہ کے لیے ایک بنیاد آپ کو حاصل ہوجائے:
- عالم ہاہوت: یہ اصطلاح موجودات کے ظہور سے قبل ذاتِحق کے بیان کے لیے استعمال ہوتی ہے ۔ اسے مقام احدیت بھی کہا جاتا ہے ۔
- عالم لاہوت: یہ ذات حق کی تجیلات کی دنیا ہے ۔ یہ آخری درجے میں غیب کی حالت ہے ۔ اسے وحدانیت بھی کہا جاتا ہے ۔
- عالم جبروت: اسے عالم ارواح بھی کہتے ۔ یہ ذات حق کے قوت و اقتدار کے ظہور کی دنیا ہے ۔
- عالم ملکوت: اسے عام مثال بھی کہتے ہیں ۔یہاں مخلوقات کا ابتدائی اور انفرادی وجود ظہورپذیر ہوتا ہے ۔
- عالم ناسوت: اسے عالم اجسام بھی کہتے ہیں ۔ یہ اصطلاح انسانی مشاہدے میں آنے والی دنیا کے لیے استعمال کی جاتی ہے ۔
بعض صوفیا ان عالموں میں سے بعض کی ترتیب کچھ بدل دیتے ہیں ۔ مثلاً عالم مثال کو عالم ملکوت اورعالم ناسوت کے بیچ کا ایک عالم قراردیا جاتا ہے۔ اسی طرح بعض صوفیا کے نزدیک عالم برزخ یا عالم اعراف کے نام سے ایک اور دنیا عالم ناسوت اور عالم ملکوت کے بیچ میں پائی جاتی ہے ۔
تصوف کاعلم انفس (Sufi Psychology )
صوفیا کا علم انفس انسان کے ظاہری اور کثیف وجود کے بالمقابل اس کے باطنی اور لطیف وجود میں پائے جانے والے کچھ روحانی اعضا یا صلاحیتوں پر قائم ہے ۔انہیں عام طور پر لطائف ستہ کہا جاتا ہے ۔یہ درج ذیل ہیں:
- لطیفۂ نفسی: انسان کے وجود کا سب سے پست اور کم تر حصہ جو اس کے جذبات، جبلتوں اور حیوانی وجودکی نمائندگی کرتا ہے اورعالم ناسوت سے متعلق ہوتا ہے ۔اسی کو مختلف احوال و مقامات سے گزار کر فنافی اللہ کے مقام پر پہنچانا اور اس کا تزکیہ کرنا تصوف کا کام ہے ۔اس کے تین احوال نفس امارہ(برائی پر ابھارنے والا نفس)، نفس لوامہ (برائی پرملامت کرنے والا نفس) اور نفس مطمئنہ(خداکے دیدار اور یاد پر مطئن ہوجانے والا نفس) کے طور پر بیان کیے جاتے ہیں ۔
- لطیفۂ قلبی: اس سے مراد گوشت کا وہ لوتھڑ ا نہیں جو سینے میں پایا جاتا ہے ، بلکہ انسانی وجود کے اس حصے کی نمائندگی کرتا ہے جو علم، حکمت، معرفت اور عشق حقیقی کا مقام ہے ۔ یہی وہ مقام ہے جہاں غلبے کے لیے انسان کی حیوانی اور روحانی قوتوں میں جنگ جاری رہتی ہے ۔ قلب اور نفس مل کر روح حیوانی کی تشکیل کرتے ہیں ۔
- لطیفۂ روحی: یہ حصہ عالم جبروت سے متعلق ہوتا ہے اور اس کی بیداری کے بعد صوفی پر عالم ارواح کے اسرار کھل جاتے ہیں ۔یہ لطیفہ ذات حق سے جڑ ا ہوا ہوتا ہے ۔یہی انسان کا غیر فانی حصہ ہے ۔
- لطیفۂ سِری: عالم ملکوت سے متعلق یہ لطیفہ براہ راست لوح محفوظ اور خدائی فیضان کا مہبط اور اس کا ایک ریکارڈ ہوتا ہے ۔ سر اور روح مل کر روح انسانی کی تشکیل کرتے ہیں ۔
- لطیفۂ خفی: اس کا مقام پیشانی کے وسط میں بیان کیا جاتا ہے اور یہ وجدان کا منبع ہے ۔ یہ عالم لا ہوت سے متعلق ہے ۔
- لطیفۂ اخفا: یہ سب سے زیادہ اندرونی اور پوشیدہ لطیفہ ہے جو ہا ہوت سے متعلق ہوتا ہے ۔ اس کا مقام سر کے وسط میں بیان کیا جاتا ہے ۔ یہیں پر الہام نازل ہوتا ہے ۔ اس کی بیداری کے بعد کل کائنات کا علم و اسرار معلوم ہوجاتا ہے ۔اخفا اور خفا مل کر روح اعظم کی تشکیل کرتے ہیں ۔
تصوف کا مطالعہ اگر آپ تفصیل کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں تو ڈاکٹر عبد القادر لون کی کتاب ’مطالعہ تصوف ‘ بہت مفید ثابت ہو گی۔ اس میں تصوف کا علم النفس اور علم کائنات تو زیر بحث نہیں آیا مگر تصوف کے دیگر حقائق بہت تفصیل کے ساتھ زیر بحث آئے ہیں ۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2016-01-27