بیوی سے بے رغبتی

30

سوال

میں یو ایس میں رہتا ہوں۔ میں نے تین ماہ پہلے پاکستان آ کر شادی کی تھی۔ اب میری بیوی یو ایس میں میرے ساتھ ہے، لیکن میں اس میں کوئی رغبت محسوس نہیں کرتا ، میرا سوال یہ ہے کہ اس صورت حال میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟

جواب

شادی ایک بہت سنجیدہ معاملہ ہے، اس کا فیصلہ بہت دیکھ بھال کر ہی کرنا چاہیے۔ لیکن اب جبکہ آپ شادی کر چکے ہیں تو ہم آپ کو یہی مشورہ دیں گے کہ اسے حتی الامکان نبھائیں۔ ای میل یا خط وغیرہ کی صورت میں چونکہ مشورہ دینے والے کے پاس معلومات بہت محدود ہوتی ہیں، اس لیے وہ کوئی بہت متعین بات نہیں کہہ سکتا۔بہرحال، کچھ اصولی نوعیت کی باتیں میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔

پہلی بات یہ ہے کہ آپ یہ دیکھیں کہ آپ کی بے رغبتی کی وجہ آپ کا اپنا کوئی غیر ضروری معیار تو نہیں ہے، عموما ًشادی کی ابتدا میں انسان کے معیارات سطحی نوعیت کے ہوتے ہیں، لیکن جب زندگی ذرا سنجیدہ رنگ اختیار کرتی ہے تو انھی معیارات میں زمین و آسمان کا فرق پڑ جاتا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ آپ اس پر غور کریں کہ اگر آپ کو اپنی بیوی میں ایک طرف کوئی خامی دکھائی دیتی ہے تو دوسری طرف اس میں کوئی نہ کوئی خوبی بھی موجود ہو گی جو آپ کو پسند ہو۔

تیسری بات یہ ہے کہ اگر آدمی بعض رویے اور بعض طور طریقے اپنا لے تو اس کے بارے میں دوسرے کی راے بہت بدل جاتی ہے۔ اس چیز کو آپ دونوں میاں بیوی اپنے اپنے حوالے سے دیکھیںاور ایک دوسرے کو وہ تبدیلی تجویز کریں جو آپ دونوں کو ایک دوسرے کی نگاہ میں پسندیدہ بنا سکتی ہے۔

چوتھی بات یہ ہے کہ اگر معاملہ دوسرے کی عادات و اطوار کے بجاے محض اس کے حسن اور اس کے انداز و ادا کے نہ بھانے کا ہے تو پھر میں یہ گزارش کروں گا کہ یہ ایک ظاہری خوبی کی نفی ہے اور بے شک یہ اہم ہے، لیکن میاں بیوی کا تعلق اس سے کہیں زیادہ وسعتیں رکھتا ہے، لہٰذا اب خدا را آپ اسے زیادہ اہمیت نہ دیں۔ البتہ اگر یہ معاملہ آپ کے لیے بہت ہی سنگین ہے، آپ محض اسی وجہ سے بیوی کے ہوتے ہوئے بالکل تنہائی کی زندگی گزار رہے ہیں اور آپ کو یہ خدشہ ہے کہ آپ گناہ میں پڑ جائیں گے تو پھر آپ باقی ممکنہ پہلووں کو سوچ سمجھ کر اس سے علیحدگی اختیار کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ اگر بیوی آپ سے الگ نہیں ہونا چاہتی اور آپ اسے درج بالا وجوہ کی بنا پر الگ کرنا چاہتے ہیں تو یہ اس پر ایک ظلم ہو گا، جس کی آپ کو اجازت نہیں دی جا سکتی سوائے اس بات کے کہ آپ بہت مجبور ہوں۔

پانچویں بات یہ ہے کہ اگر کوئی اور شخصیت طبیعت کو بھاتی ہے اور اس کے وجود نے آپ کی بیوی کو گہنا دیا ہے تو اس بات کو ایک فتنہ سمجھیں، دھوکا ہر گز نہ کھائیں اور پوری قوت سے اپنی اس ازدواجی زندگی کو سلامت رکھنے کی کوشش کریں۔

چھٹی بات یہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو اپنی بیوی کی جگہ پر رکھ کر سوچیں کہ اگر آپ لڑکی ہوتے اور کوئی شخص اپنی مرضی سے آپ کے ساتھ شادی کر کے ، تین ماہ بعد آپ کو بتاتا کہ تم مجھے پسند ہی نہیں آئی مجھے تمھارے اندر کوئی رغبت ہی محسوس نہیں ہوتی تو آپ کیسا محسوس کرتے اور آپ اس شخص سے کیا کہتے۔ ہمارے معاشرے میںمردوں کے لیے تو اس کا بہت امکان ہوتا ہے کہ وہ ایک عورت کو چھوڑ کر اپنی پسند کی دوسری عورت سے شادی کر لیں، لیکن عورتوں کے لیے یہ چانس بہت کم ہوتا ہے، کیونکہ عام طور پر لوگ شادی شدہ عورت سے شادی کرنے میں کوئی رغبت نہیں رکھتے۔

یہاں پر میں قرآن مجید کی ایک ہدایت بیان کرنا چاہوں گا جو زندگی کے بہت سے مرحلوں میں ہمارے لیے انتہائی کار آمد ہے۔ ارشاد باری ہے:

وَعَسٰۤی اَنْ تَکْرَهُوْا شَیْئًا وَّهُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَعَسٰۤی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّهُوَ شَرٌّ لَّکُمْ وَاللّٰهُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ.(البقرہ٢:٢١٦)

”اور یہ ہو سکتا ہے کہ تم کسی چیز کو اپنے لیے ناگوار خیال کرو، حالانکہ وہ تمھارے لیے بہتر ہو اور ہو سکتا ہے کہ تم ایک چیز کو اپنے لیے پسندیدہ سمجھو اور وہ تمھارے لیے بری ہو۔ اوراللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔”

یہ آیت ہمیں اس سے روکتی ہے کہ ہم اپنے جذبات و رغبات کی اندھی پیروی کریں اور ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ہم مقدر پر راضی رہیں اور ہمیشہ دلیل ہی کی رہنمائی میں چلیں۔

ضمناً میں آپ کو یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ آپ اس سلسلے میں نفسیات کے کسی ماہر سے بھی مشورہ کر سکتے ہیں۔

مجیب: Muhammad Rafi Mufti

اشاعت اول: 2015-06-27

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading