شفاعت اور نبی صلی اﷲ علیہ وسلم

17

سوال

مسئلہ شفاعت پر آپ کے مضمون (اشراق دعوہ ایڈیشن ، مئی 2006 ، کراچی) میں دلائل پڑ ھ کر شروع میں بہت خوشی ہوئی لیکن صفحہ 43 کی لائن نمبر 4 سے 15 کا مطالعہ کیا توبڑ ی نا امیدی ہوئی اس لیے کہ وہاں آپ نے شفاعت کے معاملے میں نبی صلی اﷲعلیہ وسلم کا نام لے کر اﷲ تعالیٰ کے اختیارات میں ان کو شامل کر دیا ہے جو کہ قرآن سے کسی بھی طرح ثابت نہیں ہے ۔مزید یہ کہ اگر ایسا ہوتا تو دین اسلام تو پھر حضرت ابراہیم ؑ سے شروع ہوتا ہے تو ان کا نام کیوں نہ لیا جائے۔اس طرح آپ نے قرآن سے آگے بڑ ھ کر رسول اﷲ کا نام لے کر دراصل ایک متعصب اسلام کی تصویر پیش کی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ہم آپ ؐ کے امتی ہیں۔اسی طرح مقامِ محمود کو آپ نے شفاعت سے متعلق کیا ہے جس کا کوئی علم ہمیں قرآن سے نہیں ہوتا۔دوسری بات یہ کہ اس طرح شفاعت میں نام لے کر آپ لوگوں کو اﷲ کے بھروسے سے نکال کر اﷲ کے بندوں کے بھروسے میں داخل کر رہے ہیں جو کہ قرآن کی رو سے کسی طرح بھی جائز نہیں ہے ۔اور اس طرح نام لینے سے دراصل شرک کا دروازہ کھل جاتا ہے ۔دیکھئے سورۂ بقرہ کی آیت 48۔ جب پیغمبر خودلوگوں کی ہر دوسری امید توڑ رہے ہیں تو وہ اپنے بارے میں یہ بات کیسے کہہ سکتے ہیں کہ میں ایسا کروں گا۔اگر کوئی شخص اسی طرح کسی اور کا نام لے گا تو اُس کا آپ کیسے انکار کریں گے؟

جواب

برادرم توفیق صاحب ، آپ میرے مضمون میں دیکھ سکتے ہیں کہ میرا نقطۂ نظر مکمل قرآن ہی سے ہے۔ تاہم جب کوئی بات صحیح احادیث میں بیان ہوتی ہے اور وہ قرآن کریم اور علم وعقل کے مسلمات کے خلاف بھی نہیں ہے تو میں اُسے بھی مانتا ہوں کیونکہ یہی ائمہ محدثین کے قائم کردہ معیارات ہیں۔ چنانچہ صحیح احادیث کی بنیاد ہی پر میں نے شفاعت کے معاملے میں نبی صلی اﷲعلیہ وسلم کا نام لیا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ میں اپنے مضمون میں اس بات کے کافی دلائل قرآن سے دے چکا ہوں کہ شفاعت ہو گی (مثلاً سورۂ نبا ، آیت 38)۔ قرآن کے اس بیان کے بعد کوئی اس کو چیلنج نہیں کر سکتا۔لیکن قرآن ہی یہ بات بھی واضح کرتا ہے کہ اﷲتعالیٰ اس شفاعت کی اجازت جس کو دیں گے صرف وہی شفاعت کر سکے گا اور جس کے لیے دیں گے اسی کے لیے یہ ہو گی اور وہ انصاف سے ہٹ کر بھی ہر گز نہ ہو گی۔جب یہ بات قرآن ہی سے بالکل واضح ہے کہ شفاعت ہو گی توسوال یہ ہے کہ کیا نعوذباﷲ پھر ابو جہل اور ابو لہب یہ شفاعت کریں گے؟ ہر گز نہیں ، بلکہ صحیح احادیث ہمیں اس کا جواب دیتی ہیں اور قرآن اور عقلِ عام بھی اس کی گواہی دیتے ہیں کہ شفاعت کا یہ تاج اگر کسی کو پہنایا جائے گا تو وہ صرف پیغمبر اور صالحین ہی ہو سکتے ہیں ۔رسول اﷲ نے بھی یہ فرمایا ہے کہ یہ اُن کا ایک خصوصی اعزاز ہو گا جو اﷲتعالیٰ اُن کو عطا فرمائیں گے اور مجھے یہ بات قرآن کی رو سے کسی طرح بھی غلط نہیں لگتی۔جہاں تک آپ کی اس بات کا تعلق ہے کہ اگر کوئی شخص اس معاملے میں کسی اور کا نام لے تو میرے اصول یہاں بھی وہی ہوں گے جن کے تحت میں نے رسول اﷲ کا نام لیا ہے یعنی کیا کسی صحیح حدیث میں ایسی کسی ہستی کے بارے میں بتایا گیا ہے؟

مجیب: Rehan Ahmed Yusufi

اشاعت اول: 2016-01-27

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading