سوال
قرآن بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے۔ ا س کے بعد اگر یہ مان لیا جائے کہ کسی معاملے میں تمام فقہا کی رائے یا صدیوں سے رائج کوئی نقطۂ نظر بھی غلط ہو سکتا ہے جیسے وراثت کے احکام اور شہادت کے نصاب کے بارے میں فقہا کی رائے کو نادرست قرار دیا جاتا ہے ، تو پھر ہم کس طرح یہ کہنے کے قابل رہتے ہیں کہ اسلام تمام زمانوں میں محفوظ رہا ہے؟ نیز اسلام میں اجماع کی کیا حیثیت ہے ؟
جواب
قرآن کریم میں حفاظت کے حوالے سے جو بات کہی گئی ہے وہ خود قرآن کے حوالے سے ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’بے شک یہ یاددہانی ہم ہی نے اتاری ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ‘‘ ، (حجر9 :15)
تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ ختمِ نبوت کے بعد اسلام کی بنیادی تعلیمات قرآن و سنت کی شکل میں محفوظ ہے ۔اس بات کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کا جو متن آسمان سے بذریعہ جبریل امین ہمارے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا وہ آج کے دن تک بعینہٖ ہمارے پاس موجود ہے۔ اسی طرح جو شریعت دی گئی ، عبادات کا جو ضابطہ مقرر کیا گیا، حلال و حرا م کے جو احکام ہمیں دیے گئے وہ معلوم و معروف ہیں۔ اس حفاظت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ لوگ جب بھی دین پر غور و فکر کریں گے وہ لازماً ایک ہی جیسے نتائج پر پہنچیں گے اور اگر ان میں اختلاف ہو جائے تو اس سے دین میں کوئی نقص یا کمی واقع ہوجائے گی۔ آپ بعض فقہی معاملات میں اختلاف سے یہ نتیجہ نکال رہے ہیں۔ آپ غور تو فرمائیے کہ اس سے کہیں زیادہ اختلافات عقائد کے باب میں اس امت میں ہوتے رہے ہیں۔ کیا ان اختلافات کا مطلب یہ ہے کہ دین میں کوئی کمی یا نقص واقع ہو گیا ہے ؟نہیں اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح وراثت، گواہی یا کسی اور معاملے میں دین کے کسی حکم کو سمجھنے میں اگر فقہاسے غلطی ہوجاتی ہے تو اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ یہ دین محفوظ نہیں رہا۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ اگر کبھی غلطی ہوتی ہے تو فہم میں ہوتی ہے، اصل حکم میں نہیں ہوتی۔ حکم تو قرآن و سنت میں اپنی جگہ محفوظ ہے ۔ چنانچہ کوئی دوسرا آدمی اٹھتا ہے اور قرآن و سنت کی بنیاد پر غلطی کو واضح کر دیتا ہے۔
دیکھیے بنیادی بات یہ ہے کہ دین اپنی اصل شکل میں ہمارے پاس موجود ہے ۔ اگر کوئی عالم ایک ایسی بات کہتا ہے جو پچھلوں سے مختلف ہے تو اس کی غلطی پکڑ نے کے لیے خود قرآن کریم کے پاس جائیے ۔ اُس کی بات کو قرآن پر پرکھ کر دیکھیے ۔ اگر بات قرآن مجید کے خلاف لگے تو اٹھا کر پھینک دیجیے ۔ اگر اس کے مطابق لگے تو قبول کر لیجیے ۔ یہی اصول ان باتوں پر لاگو ہو گا جو پچھلے زمانے کے لوگوں نے کہیں ۔ان کی بات کو بھی قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھ کر دیکھا جائے گا۔
یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اہل علم ہر دور میں غور و فکر کرتے ہیں اور قرآن و سنت کے دلائل کی روشنی میں اپنی بات کہتے ہیں ۔ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کسی کو یا سب کو کوئی غلطی لگ جائے ، ہو سکتا ہے کہ مسئلہ غلط و صحیح کا نہ ہو ، بلکہ ممکن ہے کہ کسی کی بات زیادہ قابل ترجیح ہو اور کسی کی کم۔ ایسی تمام صورتوں میں دین پر سے آپ کا اعتماد نہیں اٹھنا چاہیے ، بلکہ آپ کو اطمینان ہونا چاہیے کہ اہل علم جو بات بھی کہیں گے ہم ان کی بات کو قرآ ن وسنت پر پرکھ کر دیکھ لیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا تحفظ قرآن و سنت کو حاصل ہے ۔ تحفظ اس بات کو نہیں ہے کہ لوگ جب غور کریں گے لازماً ٹھیک بات تک پہنچیں گے ۔
باقی جہاں تک اجماع کا سول ہے تو اجماع دو چیزوں پر ہو سکتا ہے: ایک یہ کہ لوگ مل کر یہ کہہ دیں کہ فلاں چیز دین کی حیثیت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔ جیسے قرآن یا نماز وغیرہ۔ یہ اجماع دین کو بیان کرتا ہے اور اس کو نہ ماننے کے بعد انسان اسلام کے دائرے سے باہر چلا جاتا ہے ۔ باقی رہا قرآن و سنت کی کسی تشریح اور اس کے فہم پر اجماع تو ظاہر ہے کہ اس طرح کے اجماع سے دین وجود میں نہیں آ سکتا۔ یہ دین کی ایک شرح ہو گی جو ہمیشہ شرح ہی رہے گی، جو بہرحال قرآن و سنت کی جگہ نہیں لے سکتی۔ اس کی اہمیت تو بہت ہے لیکن اس کاجائزہ قرآن و سنت کی روشنی میں لیا جائے گا۔ اگر ان کے مطابق ہوئی تو ٹھیک ہے وگرنہ رد کر دی جائے گی، کیونکہ اصول بہر حال یہی ہے کہ جو بات قرآن و سنت کے مطابق لگے اسی کو قبول کیا جائے ۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2016-01-14