زکوٰۃ اور یتیم بچے

15

سوال

1- میری سالی کو طلاق ہوگئی اور اس کے دو بچے ہیں۔ گھر لوٹنے پر اس کے والدین نے اس کی کسی بھی قسم کی مددسے صاف انکار کر دیا ہے۔ کیا میں اپنی زکوٰۃ کی رقم مذکورہ خاتون کو دے سکتا ہوں؟

2- جن بچوں کے باپ نہیں ہوتے ، وہ تو یتیم کہلاتے ہیں مگر جن بچوں کے والد اپنی بیوی کو طلاق دے کر الگ کر دیں ، انہیں کیا کہا جائے گا؟ کیا وہ بھی یتیم کے زمرے میں آتے ہیں؟

جواب

1- زکوٰۃ کی مدات اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کریم میں بیان کی ہیں جو اس طرح ہیں :

’’صدقات توبس فقرا ، مسکینوں ، عاملین صدقات اورتالیف قلوب کے سزاواروں کے لیے ہیں اوراس لیے کے یہ گردنوں کے چھڑ انے ، تاوان زدوں کے سنبھالنے ، اللہ کی راہ اورمسافروں کی امدادمیں خرچ کیے جائیں ۔یہ اللہ کامقررکردہ فریضہ ہے ۔اوراللہ علم والا اورحکمت والا ہے ۔‘‘، (التوبہ9: 60)

اس فہرست میں ابتدائی دو نام فقرا و مساکین کے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو محتاجی اور ناداری کے ہاتھوں غربت و تنگ دستی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ آپ نے اپنی سالی کا جو معاملہ بیان کیا ہے ، اس کے بعد وہ اسی زمرے میں آتی ہیں۔ وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک بے سہارا خاتون ہیں جن کی مدد کرنا بہت ثواب کی بات ہے ۔ آپ انہیں بلا جھجک زکوٰۃ کی رقم دیجیے اور اس کے علاوہ بھی جتنی ممکن ہو ان کی مدد کیجیے ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا اجر دے گا۔

2- مذکورہ بچے یتیم نہیں ، بلکہ بے سہارا کہلائیں گے۔ ان کی ذمہ داری اصلا ً ان کے باپ پر ہے۔ لیکن وہ اگر اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے تو پھر آپ جیسے قریبی رشتے دار ہی ان بچوں کے سر پر ہاتھ رکھیں گے۔ اس حیثیت میں ان میں اور یتیم میں کوئی فرق نہیں ہے۔ آپ ان کی دل کھول کر مدد کیجیے ، اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین اجر دے گا۔

مجیب: Rehan Ahmed Yusufi

اشاعت اول: 2016-02-08

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading