سوال
آپ نے یقینا ڈاکٹر عافیہ کے بارے میں سنا ہو گا۔وہ مسلمان ہیں اور پاکستانی ہیں ۔میں نے سنا ہے کہ وہ بگرام (افغانستان) میں قید ہیں ۔آپ اپنے لیکچرز میں فرماتے ہیں کہ جہاد حکمرانوں کی ذمہ داری ہے اور کوئی فرد انفرادی طور پر جہاد کا نعرہ نہیں لگا سکتا۔کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اگر آپ کی اپنی بیٹی اس طرح امریکیوں کی قید میں ہوتی تو آپ کیا کرتے ؟
جواب
جہاد کے بارے میں ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اسے نظمِ اجتماعی اور حکمران کے تحت ہونا چاہیے ۔اس کے بغیر دین جہاد کی اجازت نہیں دیتا۔آپ کا فرمانا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ایک پاکستانی مسلمان ہیں اورغیر ملکیو ں کی قید میں ہیں۔ ان کی جگہ اگر ہماری اپنی بہن یا بیٹی قید میں ہوتی تو ہم کیا کرتے؟ آپ کا مدعا غالباً یہ ہے کہ کیا ایسی صورت میں ہم حکومت کی اجازت کے بغیر فرد کی حیثیت سے جہاد نہ کرتے؟
محترم آپ کی بات کے جواب میں ہم عرض کریں گے کہ بلاشبہ ڈاکٹر عافیہ کا معاملہ سرتاسر ظلم کا معاملہ ہے۔ ان کا بچوں سمیت اغوا، بے سبب قید اور اس میں ہونے والے مظالم، سب ہر اعتبار سے ظلم ہیں ۔تاہم اس کی بنیاد پر جو سوال آپ نے اٹھایا ہے ، وہ درست نہیں ۔ دینی احکام اس طرح نہیں اخذکیے جاتے جس طرح آپ سوچ رہے ہیں ۔دین کے اجتماعی احکام جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیے جاتے ہیں تو ان میں افراد کا لحاظ نہیں رکھا جاتا ، بلکہ اجتماعی امور پیش نظر رکھے جاتے ہیں ۔جہاد کے احکام کا معاملہ تمام اجتماعی احکام سے زیادہ نازک ہے ، کیونکہ اس میں ہزاروں نہیں ، بلکہ لاکھوں لوگوں کی جان ، مال آبرو داؤ پر لگ جاتی ہے ۔ان احکام کی تفصیل خود ایک موضوع ہے ، مگر سرِ دست جس پہلو سے آپ نے سوال کیا ہے ، ہم اسی پہلو سے بات سمجھانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کا ایک واقعہ آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں ۔
یہ واقعہ آلِ یاسر کا ہے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعو ت پر حضرت یاسر، ان کی اہلیہ سمیہ اور صاحبزادے عمار ایمان لے آئے ۔یہ دعوتِ دین کا وہ زمانہ تھا جب سردارانِ قریش ابوجہل کی قیادت میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کا پہاڑ توڑ رہے تھے ۔ ان مسلمانوں کا جرم نبی کی پکار پر لبیک کہنا اور خداے واحد پر ایمان لے آنا تھا۔دیگر لوگوں کی طرح ان لوگوں کو بھی ابوجہل نے بدترین ظلم کا نشانہ بنایا اور آخرکار حضرت یاسر اور ان کی اہلیہ حضرت سمیہ کو شہید کر دیا۔ اس موقع پر حضور کی طرف سے کیا اقدام کیا گیا ، اس کا ذکر حدیث کی کتابوں میں یہ ملتا ہے:
عمار بن یاسر، ان کے والدیاسر اور والدہ سمیہ اسلام لے آئے ، بنو مخزوم(ابو جہل کا خاندان) ان پر ظلم کرتے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہاں سے گزر ہوا تو آپ نے ان پر ہونے والے ظلم کو دیکھ کر ان سے کہا کہ اے آلِ یاسر ، صبر کرو تمھارے لیے جنت کی خوشخبری کا وعدہ ہے ۔
( مستدرک علی الصحیحین، رقم 5666,5646)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی عام انسان نہیں ، پروردگار عالمِ کے پیغام بر تھے ۔اگر وہ صبر کے بجائے جنگ کی راہ اختیار کرتے تو نہ کفار کی کثرت ان کا راستہ روک سکتی تھی اور نہ شان و شوکت۔ وہ خدا جو بدر میں فرشتے بھیج سکتا تھا وہ اب بھی فرشتے نازل کرسکتا تھا، مگر ا س نے ایسا نہیں کیا ، بلکہ جنگ کرنے پر پابندی لگادی یہاں تک کہ یاسر اور ان کی اہلیہ کو انتہائی بے دردردی سے شہید کر دیا گیا اور عمار کو کلمۂ کفر کہہ کر جان بچانی پڑ ی (ابن کثیر، تفسیر سورہ نحل آیت 106)۔ صبر کی یہ تلقین اور آلِ یاسر پر یہ ظلم ہمارے آپ جیسے لوگوں کو یہ بتانے کے لیے گوارا کیا گیا کہ جنگ کا معاملہ جس میں جان ، مال اور آبرو کی بربادی بچوں کا کھیل بن جاتی ہے ، کچھ جذباتی لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں چھوڑ ا جا سکتا۔اس کے لیے اقتدار شرط ہے ۔ چنانچہ جب مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیر قیادت مسلمانوں کو اقتدار ملا تو پھر مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دی گئی اور اجازت کا مطلب یہی ہے کہ پہلے اس کی ممانعت تھی۔
’’جنگ کی اجازت ہے ان لوگوں کو جن سے جنگ کی جائے ، اس لیے کہ ان پر ظلم ہوا اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے ۔‘‘ ، (حج22: 39)
جنگ کی اجازت کے بعد بھی اسی نوعیت کے بعض واقعات پیش آئے ۔ مثلاً صلح حدیبیہ کے موقع پر ابو جندلؓ کا واقعہ سب کو معلوم ہے جو ایمان لانے کی بنا پر قریش کے ظلم و ستم کا شکار تھے ۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر یہ کفار کی قید سے فرار ہوکر اپنی بیڑ یاں گھسیٹتے ہوئے مسلمانوں کے پاسٓپہنچے اور مدد کے طلبگار ہوئے ۔مگر اس موقع پر معاہدہ طے پا چکا تھا جس کی رو سے مسلمان ان کی مدد نہیں کرسکتے تھے ۔نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں صبر کی تلقین کے ساتھ کفار کے حوالے کر دیا۔مسلمانوں کے لیے یہ ایک انتہائی ناگوار واقعہ تھا ، مگر عہد کی پابندی کے باعث اسے برداشت کیا گیا۔ آج بھی مسلمان ریاستیں بین الاقوامی عہد و پیمان کی پابند ہوتی ہیں ۔اس عہد کی رو سے وہ امن کی حالت میں ہیں اور اعلانِ جنگ کے بغیر جنگ نہیں کرسکتیں ۔ ایسے میں کسی فرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ذاتی طور پر اٹھ کر عہد کو توڑ دے ، ریاست کی طرف سے اعلان جنگ کر کے لڑ ائی کاآغاز کر دے اور پھر اس جنگ کے نتائج پوری قوم کو بھگتنے پڑ یں ۔
اگر آپ یہ محسوس کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو دنیا میں باعزت مقام حاصل ہونا چاہیے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ قوم کی تعمیر کیجیے ۔ جس طرح فرد اپنی زندگی کی تعمیر کرتا ہے ۔ پہلے طاقت حاصل کیجیے ، تعلیم، ٹیکنالوجی اور فنون میں ترقی حاصل کیجیے ۔ یہی آج کے دور میں طاقت کا راز ہے ۔ اس عرصے میں صبر سے کام لیجیے ۔دیکھیے مسلمانوں نے آل یاسر کے معاملے میں صبر سے کام لیا تو کچھ عرصہ میں مدینہ کا اقتدار حاصل کر لیا۔ابو جندل کے معاملے میں صبر کیا تو تھوڑے دنوں میں مکہ اور پھر پورے عرب پر مسلمانوں کا اقتدار قائم ہو گیا۔ہم بھی مسلمانوں کی یہی تربیت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کی کوشش کریں اور اس کے لیے صبر کے ساتھ اپنی قومی تعمیر کریں ۔ جب ایسا ہوجائے گا تو پھر وہ بھی محمد بن قاسم کی طرح کسی راجہ داہر سے مسلمان عورتوں کو چھڑ ا سکیں گے ۔
آپ اگر ظلم کے خلاف جہاد کرنا ہی چاہتے ہیں تو اس کے بھی بہت میدان ہیں ۔ کبھی اپنے ملک کی عدالتوں اور تھانوں کا چکر بھی لگالیں ۔وڈیروں ، سرداروں اور چوہدریوں کی جاگیروں میں ہونے والے مظالم سے بھی کچھ آگاہی حاصل کریں ۔ ڈاکٹر عافیہ جیسی اور ان سے کہیں زیادہ مظلوم داستانیں جگہ جگہ بکھری ہوئی نظر آئیں گے ۔ ڈاکٹر شازیہ کے ساتھ سوئی (بلوچستان )میں جو کچھ ہوا وہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے ۔ ان کی بے رحمانہ آبروریزی سے زیادہ بڑ ا ظلم یہ تھا کہ انہیں انصاف دینے کے بجائے دھکمیاں دے کر ملک سے باہر جانے پر مجبور کر دیا گیا ۔ منو بھیل ہاری کا معاملہ آج کل اخبارات میں عام ہے ۔ کبھی وقت ملے تو اس کی تفصیلات بھی پڑ ھ لیجیے ۔ کس طرح ایک مظلوم ہاری کے خاندان کے 9 افراد 10 برس سے ایک وڈیرے کی بے رحمانہ قید میں ہیں ۔یہ چند واقعات وہ ہیں جو کسی نہ کسی طرح میڈیا میں آ جاتے ہیں ۔ہزاروں ان کہی کہانیاں تو شاید روز حشر سے پہلے سامنے بھی نہ آ سکیں ۔ ہماری فکری قیادت ان چیزوں پر توجہ کرنے کے بجائے اپنے سارے مصائب کا ذمہ دار دوسروں کو قرار دے کر لوگوں کا رخ اُس سمت موڑ دیتی ہے جہاں فرد کی سطح پر ڈاکٹر عافیہ جیسے سانحات جنم لیتے اور اجتماعی سطح پر کشمیر و فلسطین کے مسئلے حل ہونے کے بجائے عراق اور افغانستان کے مسائل وجود میں آ جاتے ہیں ۔
ہمارے نزدیک مسلمان اس وقت جس صورتحال کا شکار ہیں وہ یہ نہیں ہے کہ دوسری اقوام ان پر ظلم کر رہی ہیں ، بلکہ درحقیقت وہ اللہ تعالیٰ کے قہر و غضب کا شکار ہیں ۔ ختمِ نبوت کے بعد دنیا کے پاس اسلام کو جاننے کا ذریعہ صرف مسلمان ہیں ۔ مگر مسلمان اپنے قول و فعل دونوں سے اس وقت اسلام کا بدترین تعارف بنے ہوئے ہیں ۔مزید یہ کہ وہ غیر مسلموں کے ساتھ۔ ۔ ۔ وہی غیر مسلم جن تک دین ہمارے ذریعے سے پہنچنا چاہیے ۔ ۔ ۔ نہ ختم ہونے والی جنگ کا حصہ بن چکے ہیں ۔مسلمان بدترین اخلاقی بحران کا شکار ہیں ۔وہ علم اور ٹیکنالوجی کے میدان میں دنیا بھر سے پیچھے ہیں ۔ ان کا دینی علم قرآن و سنت کے بجائے توہمات اور جذباتیت کی بنیاد پر اخذکیا جاتا ہے ۔یہ وہ وجوہات ہیں جو آج مسلمانوں کی ذلت اور تباہی کا سبب ہیں ۔ ہم انہی چیزو ں کی اصلاح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔کسی ملامت گر کی ملامت ، ان شاء اللہ ہمیں اس راستے سے نہیں روک سکتی۔
آخر میں گراں خاطر نہ ہوں تو ایک سوال آپ سے بھی کر لیا جائے ۔ اوپر سیرت طیبہ کے حوالے سے دو واقعات ہم نے بیان کیے ہیں جن میں مسلمانوں پر بدترین ظلم دیکھنے کے باجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ نہیں کی۔یہ فرمائیے کہ اگر آپ اس وقت موجود ہوتے تو کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی وہی سوال کرنے کی جرات کرتے جو آپ نے ہم سے کیا ہے؟
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2016-01-27