زنا کے مرتکب شخص کے ساتھ شادی

23

سوال

ایک مسلمان لڑ کی کے لیے ایک ایسے مسلمان
مرد کا رشتہ آیا ہے جو اپنے منہ سے اعتراف کرتا ہے کہ وہ ماضی میں شراب
پیتا رہا ہے اور اُس نے کئی مرتبہ غلط قسم کی لڑ کیوں سے جنسی تعلقات قائم
کیے ہیں ، لیکن اب وہ شادی کرنا اور صاف ستھری زندگی گزارنا چاہتا ہے اور ا
س کا ارادہ ہے کہ آئندہ وہ ماضی کی برائیوں سے دور رہے گا۔ اِس صورت میں
کیا لڑ کی کو یہ رشتہ قبول کر لینا چاہیے یا اسلام نے ایسے شخص سے ایک
مسلمان لڑ کی کا رشتہ ممنوع ٹھرایا ہے؟

جواب

اسلام میں زنا ایک بہت سنگین جرم ہے ۔ اس کی اخروی سزا کے علاوہ دنیوی سزا بھی بہت سخت ہے ۔ اس سزا کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس جرم کے مرتکب مرد و عورت کو یہ اجازت نہیں کہ وہ کسی پاک دامن مسلمان مردیا عورت سے شادی کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

’’زانی نکاح نہ کرنے پائے مگر کسی زانیہ یا مشرکہ سے ، اور کسی زانیہ سے نکاح نہ کرے مگر کوئی زانی یا مشرک۔ اور اہلِ ایمان پر یہ چیز حرام ٹھہرائی گئی ہے ۔‘‘ ، (نور3 :24)

تاہم یہ قانونی سزا کا بیان ہے ۔ یعنی زنا کے گناہ کے مرتکب کا جرم اگر عدالت میں ثابت ہوجاتا ہے تو پھر اسے یہ سزا بھی د ی جائے گی۔ کسی شخص کا معاملہ اگر عدالت تک نہ پہنچے تو پھر اسے اپنے گناہ کی معافی اپنے رب سے مانگنی چاہیے اور ایک متقی اور صالح انسان کی زندگی اختیار کرنی چاہیے۔ یہ طریقہ بالکل غلط ہے کہ وہ اپنے گناہ کا اعلانِ عام کرتا پھرے۔

آپ نے جو معاملہ بیان کیا ہے اس میں چونکہ معاملہ عدالت میں نہیں گیا اس لیے دین کی طرف سے نکاح میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ، اس کا فیصلہ لڑ کی اور اس کے گھر والوں کو کرنا ہو گا کہ وہ اس کردار اور پس منظر کے شخص سے شادی کرتے ہیں یا نہیں ۔ انہیں اگر اطمینان ہے کہ اس شخص نے سچے دل سے توبہ کر لی ہے اور اس کا حال اس بات کا گواہ کہ ماضی کی کسی غلاظت میں اب وہ ملوث نہیں بلکہ ایک صالح انسان کی زندگی گزار رہا ہے تو شادی کرنا ان کا اختیار ہے ۔

مجیب: Rehan Ahmed Yusufi

اشاعت اول: 2016-01-23

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading