سوال
مجھے یہ سمجھنے میں مشکل پیش آرہی ہے کہ ‘قلب’ کیا ہے۔ میں اپنا اشکال تفصیل سے بیان کر رہا ہوں۔ آپ سے درخواست ہے کہ اس کا مطالعہ کرکے میرا یہ مسئلہ حل کر دیں۔
سورہ بقرہ کی آیت 10 میں ہے:
‘ان کے دلوں میں بیماری ہے اور اللہ نے ان کی بیماری بڑھا دی۔
ہم نے لفظ ‘قلب’ کا ترجمہ دل کیا ہے۔ یہ لفظ قرآن مجید میں کئی مرتبہ آیا ہے۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے پرانے فلسفی اور مذہبی کتابیں بھی دل کا ذکر مرکز احساسات کے طور پر کرتے ہیں۔ لیکن جدید نفسیات کے مطابق یہ بات بالکلیہ غلط ہے:
قدیم فلسفی اور مقبول عام تصور دل کو جذبات کا محل قرار دیتا ہے۔ اس کے برعکس جدید سائنسی تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دماغ ہی محرکات، داعیات اور جذبات کی آماج گاہ ہے۔
(Psychology for VCE, Valerie Clarke & Susan Gillet, 3/48)
محبت جیسی چیز کو بھی اب دماغ کے ایک حصے میں خون کے بہاؤ کی پیمایش سے متعین کر لیا گیا ہے۔ مزید کے لیے دیکھیے:
(The Science of Love, Charles Pasternak)
اب بتائیے کہ قرآن کے قلب کی تعریف (definition) کیسے کی جائے گی۔ اگر ہم صوفیا کے اس قول کو مان لیتے ہیں کہ قلب انسانی روح کا ایک لطیف جزو ہے جس کے ساتھ انسان کے بہت سے خصائص وابستہ ہیں تو اس چیز کو بھی جدید نفسیات غلط قرار دیتی ہے:
سترویں صدی عیسوی میں فرانسیسی فلسفی رینے ڈیکارٹ نے دہرے پن کا تصور پیش کیا ۔ یعنی ذہن (یا روح) اور جسم الگ الگ چیزیں ہیں۔ ذہن اور جسم کا الگ الگ آزاد وجود انھی فلسفیوں کو معقول دکھائی دیتا ہے جنھیں انسانی جسم کی پیچیدگیوں کا کچھ بھی اندازہ نہیں تھا۔ انیسویں صدی عیسوی کے دوران میں ہم نے دماغ کی کارکردگی کو بہتر طور پر سمجھنا شروع کر دیا تھا۔ اس کا آغاز غالباً ١٨٦٠ء میں بروکا (Broca) کی دریافت سے ہوا تھا۔ یعنی دماغ کا وہ حصہ جس میں گفتگو وجود پاتی ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی کی سائنسی دریافتیں دہرے پن کے تصور کو رد کرکے وحدت کا تصور پیش کرتیں ہیں۔ مراد یہ ہے کہ کوئی شے اس وقت تک ذہنی نہیں ہوتی جب تک وہ جسمانی نہ ہو۔
Psychology for VCE, Valerie Clarke & Susan Gillet, 3/48
جواب
آپ کے سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ قرآن مجید میں لفظ ’قلب‘ کا استعمال محاورے کے طور پر ہوا ہے۔ اہل عرب کچھ افعال کو قلب سے منسوب کرتے تھے۔ قرآن مجید نے اس تصور کی تردید کی کوئی ضرورت نہیں سمجھی اورانسانی شخصیت کے کچھ خصائص کے لیے وہی الفاظ اور اسالیب استعمال کیے ہیں جو عرب کرتے تھے۔ گویا قرآن دماغ اور قلب کی دوئی کا قائل نہیں ہے۔ قرآن کے پیش نظر چونکہ صرف ہدایت ہے، اسے عربوں کی نفسیات، فلکیات، بائیالوجی اور حیوانیات وغیرہ میں اصلاح سے کوئی غرض نہیں تھی، اس لیے اس نے انسانی شخصیت کی ایک جہت یا انسانی دماغ کے ایک وظیفے کے لیے، جو اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے، مروج لفظ ’قلب‘ کو اپنے مدعا کے اظہار کے لیے استعمال کیا تاکہ اس کی بات کماحقہ مخاطب تک پہنچ سکے۔
آپ کے سوال کا دوسرا جواب یہ ہے کہ سائنس اور نفسیات کی مجبوری یہ ہے کہ وہ صرف اسی شے کا تجزیہ کرے جو نظر آتی ہے۔ انسان کی اصل شخصیت اگر اس کے مادی جسم سے الگ کوئی غیر مرئی چیز ہے تو یہ سائنس کی گرفت میں نہیں آسکتی، اس لیے وہ اس کے بارے میں کوئی حکم لگانے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے۔ انسانی دماغ ایک مادی چیز ہے۔ لہٰذا سائنس دانوں نے اس کا مطالعہ کرکے حیرت انگیز چیزیں دریافت کی ہیں۔ آپ کی یہ بات بالکل درست ہے کہ وہ جسم اور ذہن کی دوئی کے بجاے وحدت کے تصور کے قائل ہیں۔ لہٰذا وہ دماغ ہی کو تمام فکری یا نفسیاتی اعمال کا مرکز قرار دیتے ہیں۔ سائنس دانوں کی اس مجبوری کو ہم مان لیتے ہیں اور ان کی ان دریافتوں کو بھی درست قرار دینے میں فی الحال کوئی حرج نہیں ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا قرآن بھی اسی وحدت کا قائل ہے۔ اس کا جواب اثبات میں نہیں ہے۔ دیکھیے موت کے واقعے کو بیان کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے:
وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلآءِکَۃُ بَاسِطُوْٓا اَیْدِیْہِمْ اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَکُمْ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ غَیْرَ الْحَقِّ.(الانعام۶: ۹۳)
اور اگر تم دیکھ پاتے اس وقت کو جب یہ ظالم موت کی جان کنیوں میں ہوں گے اور فرشتے ہاتھ بڑھائے ہوئے مطالبہ کر رہے ہوں گے کہ تم اپنی جانیں ہمارے حوالے کرو۔ آج تم ذلت کا عذاب دیے جاؤ گے، اس لیے کہ تم اللہ پر ناحق تہمت جوڑتے تھے۔
سورہ انعام 6، آیت 93
اس آیت میں واضح ہے کہ موت جسم سے کسی شے کے الگ ہونے کا نام ہے۔ سائنس دانوں کے نزدیک موت اس کے سوا کوئی چیز نہیں ہو سکتی کہ اس جسم کی مشینری کسی سبب سے بند ہو گئی ہے۔ بہرحال جس چیز کے لیے قرآن نے جان کا لفظ بولا ہے، وہ اس جسم سے الگ ایک چیز ہے۔ ظاہر ہے جسم ہی کی طرح اس کے بھی کچھ افعال واعمال ہیں۔ معلوم یہی ہوتا ہے کہ یہ اپنے افعال و اعمال کے لیے اسی جسم کو استعمال کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب یہ اس جسم سے الگ ہوتی ہے تو اس کے اعمال و افعال کا سلسلہ بھی منقطع ہو جاتا ہے۔
جدید ماہرین کو جسم کی یہی کار کردگی نظر آتی ہے اور وہ اپنی محدودیت کے باعث اسی کو کل سمجھنے پر مجبور ہے۔ ہم بھی سائنس کی حاکمیت کو ضرور مان لیتے، لیکن اللہ تعالیٰ کے واضح بیان کی روشنی میں ہم سائنس دانوں کے اس فیصلے کی تغلیط کرتے ہیں۔
جب ہم نے یہ مان لیا کہ انسانی شخصیت کے دو حصے ہیں تو اب سوال یہ ہے کہ ان دونوں کی یکجائی کی نوعیت کیا ہے۔ کیا جان پورے جسم میں سرایت کیے ہوئے ہے یا یہ کسی ایک جگہ سے سارے جسم کو استعمال کرتی ہے۔ قرآن مجید میں اس کے بارے میں کوئی بات بیان نہیں ہوئی۔ البتہ اس میں یہ بات ضرور بیان ہوئی ہے کہ قلب کہاں ہے۔ سورۂ احزاب میں ہے:
مَا جَعَلَ اللّٰہُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِہٖ.(۳۳: ۴)
اللہ نے کسی آدمی کے سینے میں دو دل نہیں بنائے۔
سورہ احزاب 33، آیت 4
اسی طرح سورۂ حج میں ہے:
اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَتَکُوْنَ لَہُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِہَآ اَوْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِہَا فَاِنَّہَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ. (۲۲: ۴۶)
کیا یہ لوگ ملک میں چلے پھرے نہیں کہ ان کے دل ایسے ہو جاتے کہ یہ ان سے سمجھتے یا ان کے کان ایسے ہو جاتے کہ یہ ان سے سنتے، کیونکہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔
سورہ حج 22، آیت 46
یہ دونوں آیتیں میرا رجحان یہ ہے کہ قلب کے محاورۃً استعمال ہونے کے تصور کی نفی کرتی ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہی دل جو سینے میں ہے، کچھ اعمال کا محمل ہے۔ اس رجحان کی وجہ یہ ہے کہ اگر حقیقت اس کے برعکس ہوتی، یعنی دماغ ہی سارے افعال واعمال کا مرکز ہوتا تو قرآن مجید میں دل کا لفظ تو استعمال ہوتا، لیکن اس کے بارے میں اس طرح کے تصریحی جملے نہ ہوتے۔
مثال کے طور پرنزول قرآن کے زمانے میں زمین کو ساکن اور سورج کو اس کے گرد چکر لگانے والا سمجھا جاتا تھا۔ قرآن مجید نے اس تصور کی کہیں تردید نہیں کی، لیکن جب اجرام فلکی کا ذکر کیا تو سب کے بارے میں کہا کہ وہ اپنے اپنے مدار میں گرداں ہیں۔ دل کے معاملے میں بھی یہی ہوناچاہیے تھا۔ جب اس کی عملی حقیقت کو بیان کیا جاتا تو اسے دماغ سے منسوب کیا جاتا۔
ان آیات سے اس سوال کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ انسان کی اس صلاحیت کا مرکز کہاں ہے۔ جب قرآن یہ کہتا ہے کہ اصل میں وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں تو وہ یہ بات واضح کر دیتا ہے کہ اصل میں انسان جو فیصلے کر رہا ہے، اس کی حق قبول کرنے کی صلاحیت اس کے دل کے صحیح کام کرنے پر منحصر ہے۔ دماغ کے عمل اور دل کے عمل کے فرق کی نوعیت وہی ہے جو مشین کے عمل اور آپریٹر کے عمل کے فرق کی ہے۔ یہ درست ہے کہ پروڈکشن دماغ ہی میں ہوتی ہے جسے سائنس دان دیکھتے ہیں، لیکن اس کو وجود میں لانے والی شے اور ہے۔
مجیب: Talib Mohsin
اشاعت اول: 2015-09-07
[…] اردو […]