تصوف اور اسلام

26

سوال

آپ کہتے ہیں کہ ’’تصوف اسلام کا حصہ نہیں ہے ‘‘ حالانکہ ہماری تاریخ میں مفسر، بزرگ اور عالم قسم کے جتنے بھی بڑ ے بڑ ے لوگ گزرے ہیں وہ سب صوفی تھے مثال کے طور پر امام غزالی، مولانا اشرف علی تھانوی، مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ اور دیگر تمام اولیاوغیرہ اور انہوں نے علمِ شریعت کے بعد طریقت ہی کا راستہ اختیار کیا اور فرمایا کہ ’’روحانیت‘‘ تو صرف تصوف میں موجود ہے ۔صوفی ازم تو یہودیوں ، عیسائیوں اور دنیا کی دیگر اقوام میں بھی پایا جاتا ہے تو پھر اسے غیر اسلامی کیوں قرار دیا جاتا ہے؟

جواب

تصوف کا علمی مطالعہ واضح کرتا ہے کہ اس کے تین اجز ہیں:

  1. مذہبی اعتقدات یعنی توحید، رسالت اور آخرت کے بارے میں اس کا نقطۂ نظر
  2. اوراد و اشغال اور چلوں اور مراقبوں پر مشتمل بیان کردہ اعمال و وظائف
  3. عام اخلاقی رویوں میں اچھے اخلاق اپنانے اور رزائل سے پرہیز کی تلقین

ہمارے نزدیک ابتدائی دو چیزوں میں تصوف کا نقطۂ نظر قرآن و سنت کی تعلیمات سے بہت کچھ مختلف اور مبالغہ پر مبنی ہے۔ اس لیے ہم اسے غلط کہنے پر مجبور ہیں۔ ان کے تفصیلی تجزیے کے لیے آپ استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کی تصنیف ’برھان‘ کے مضمون ’اسلام اور تصوف ‘کا مطالعہ کرسکتے ہیں ۔ اس مضمون میں انہوں نے تصوف کے ائمہ کی کتابوں سے یہ بات واضح کر دی ہے کہ ان کا نقطۂ نظر قرآن و سنت سے کتنا مختلف ہے ۔

آپ نے یہ بات درست نہیں فرمائی کہ ہماری تاریخ کے سارے مفسر اورعالم صوفی تھے ۔ہمارے ہاں تصوف کا غلبہ قرون اولیٰ کے بعد ہوا ہے ۔باقی جن بزرگوں کے نام آپ نے لیے ، وہ سر آنکھوں پر مگر کیا کیجیے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اللہ تعالیٰ نے کسی کو یہ مقام نہیں دیا کہ دین میں اس کی بات حجت مانی جائے ۔آپ تصوف کو دین قرار دینا چاہتے ہیں تو حضور کی نسبت سے کچھ لائیے ۔حضور کے سوا کسی اور کی نسبت سے کوئی چیز دین نہیں بنتی۔

مجیب: Rehan Ahmed Yusufi

اشاعت اول: 2016-01-28

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading