حفاظتِ قرآن کا خدائی وعدہ اور حدبث رجم

26

سوال

میرا آپ سے یہ سوال ہے کہ قرآن حکیم اللہ کی طرف سے نازل کی ہوئی کتاب ہے ، جب کہ حفاظت کی ذمہ داری بھی اللہ تعالیٰ نے خود لی ہے ’’انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون۔‘‘ نبوت کو بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اس لیے ختم کیا گیا کہ قرآن کو محفوظ بنایا گیا ہے ، اب نبوت کی کوئی گنجايش نہیں ہے ۔ لیکن دیکھا جائے تو ’’ہماری کتب احادیث ‘‘ کے مطابق قرآن کے محفوظ ہونے کا اللہ کا وعدہ پورا نہیں ہو رہا۔ بخاری شریف میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے کہ ’’رجم‘‘ کی آیت قرآن میں موجود تھی ، ہم اس پر عمل کرتے تھے۔اس کے علاوہ ابن ماجہ میں بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا سے راویت کی گئی ہے کہ ’’رضاعت کبیر‘‘ کی قرآنی آیت تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی پریشانی میں میرے سرہانے رکھی ہوئی تھی جس کو بکری کھا گئی۔ اگر یہ دونوں باتیں صحیح مانی جائیں تو قرآنِ محفوظ کا تصور نہیں رہتا اورمحترم امین احسن اصلاحی صاحب نے بھی لکھا ہے کہ۔ ’’رجم ‘‘کی سزا قرآن میں نہیں ہے۔ لہٰذا یہ روایت درست نہیں ‘‘ ۔ امید ہے کہ مفصل جواب دیکر وضاحت فرمائیں گے۔

جواب

قرآن کریم کتاب محفوط ہے یا نہیں ، اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خود کر دیا ہے۔ آ پ نے سورۂ حجر15: 9 کی جو آیت (بے شک ہم نے ہی اس ذکر یعنی قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں) نقل کی ہے وہ اس باب میں آخری اور فیصلہ کن بات ہے۔ ایک مسلمان کے لیے یہ آیت ہی کافی ہے ، لیکن تار یخی حقائق بھی اس بات کی تائید ہی کرتے ہیں کہ قرآن کریم جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ، ٹھیک اسی طرح آج بھی ہمارے پاس موجود ہے ۔اب آئیے ان دو روایات کی طرف جن کا آپ نے حوالہ دیا ہے ، ذیل میں ہم ان کی وضاحت کر دیتے ہیں۔
ابن ماجہ کی روایت
اس رویات کا اصل متن یہ ہے:

”ام المومنین عائشہ سے روایت ہے رجم کی آیت اور بڑ ے آدمی کو دس بار دودھ پلا دینے کی آیت اتری تھی اور یہ دونوں آیتیں ایک کاغذ پر لکھی ہوئی میرے تخت کے نیچے موجود تھیں ۔ جب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور ہم آپ کی وفات میں مشغول تھے تو گھر کی پلی ہوئی بکری آئی اور وہ کاغذ کھا گئی۔ (سنن ابن ماجہ ، رقم 1944، کتاب النکاح)

یہ روایت معمولی فرق کے ساتھ مسند احمد (26359) ، مسند ابی یعلی (4588) اور طبرانی کی المعجم الاوسط (7805) میں بھی نقل ہوئی ہے۔ اس روایت کی سند پر محدثین نے کلام کیا ہے اور سند میں موجود ایک راوی محمد ابن اسحاق کی بنا پر اسے منکر قرار دیا ہے۔ تاہم یہ روایت سند کے اعتبار سے بالکل ٹھیک ہو تب بھی اس کا متن پکار پکار کر یہ بتا رہا ہے کہ اس کی نسبت سیدہ عائشہ سے درست نہیں ہے۔ پروردگارِ عالم ایک طرف قرآن کی حفاظت کا دعوی فرماتا ہے اور دوسری طرف وہ معاذ اللہ ایک بکری کو آیات الہی چرنے سے نہ روک پائے ، یہ بات خلاف عقل ، خلاف نقل اور خلاف واقعہ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ قرآن کریم نازل ہونے کے بعد صرف ایک دو لوگوں تک محدود نہیں رہا کرتا تھا کہ اگر وہ بھول گئے یا لکھے ہوئے مصحف کو ضائع کر بیٹھے تو قرآ ن کریم کی آیات ہی ضائع ہو جاتیں۔ قرآنی آیات جب نازل ہوتیں تو ان کا مقصد نزول ہی یہ ہوتا تھا کہ وہ لوگوں تک پہنچیں ، لوگ انہیں یاد رکھیں اور آگے پھیلائیں۔ان گنت لوگ تھے جو قرآن کی ہر آیت کو زبانی حفظ کر لیتے تھے۔ اسے لکھ لیا جاتا تھا اور اسے آگے پھیلایا جاتا تھا۔ یہ کوئی انسانی عمل نہ تھا بلکہ اللہ تعالی کی اپنی نگرانی میں کیا جانے والا کام تھا۔ استاذ گرامی جاوید احمد صاحب غامدی نے قرآن کریم کے اپنے بیانات کے حوالے سے اس عمل کی تفصیلات اس طرح بیان کی ہیں :
”اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

‘عنقریب (اِسے ) ہم (پورا) تمھیں پڑ ھا دیں گے تو تم نہیں بھولو گے ، مگر وہی جو اللہ چاہے گا ۔ وہ بے شک ، جانتا ہے اُس کو بھی جو اِس وقت (تمھارے) سامنے ہے اور اُسے بھی جو (تم سے) چھپا ہوا ہے ۔’ (الاعلیٰ 87: 6-7)
‘اِس (قرآن) کو جلد پا لینے کے لیے ، (اے پیغمبر ) ، اپنی زبان کو اِس پر جلدی نہ چلاؤ۔ اِس کو جمع کرنا اور سنانا ، یہ سب ہماری ہی ذمہ داری ہے۔ اِس لیے جب ہم اِس کو پڑ ھ چکیں تو (ہماری) اُس قراءت کی پیروی کرو۔ پھر ہمارے ہی ذمہ ہے کہ (تمھارے لیے اگر کہیں ضرورت ہو تو) اِس کی وضاحت کر دیں ۔’ (القیامہ 75: 16-19)

اِن آیتوں میں قرآن کے نزول اور اُس کی ترتیب و تدوین سے متعلق اللہ تعالیٰ کی جو ا سکیم بیان ہوئی ہے ، وہ یہ ہے:
اولاً ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا ہے کہ حالات کے لحاظ سے تھوڑ ا تھوڑ ا کر کے یہ قرآن جس طرح آپ کو دیا جا رہا ہے ، اِس کے دینے کا صحیح طریقہ یہی ہے ، لیکن اِس سے آپ کو اِس کی حفاظت اور جمع و ترتیب کے بارے میں کوئی تردد نہیں ہونا چاہیے ۔اِس کی جو قراء ت اِس کے زمانۂ نزول میں اِس وقت کی جا رہی ہے ، اِس کے بعد اِس کی ایک دوسری قراء ت ہو گی۔ اِس موقع پر اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تحت اِس میں سے کوئی چیز اگر ختم کرنا چاہیں گے تو اُسے ختم کرنے کے بعد یہ آپ کو اِس طرح پڑ ھا دیں گے کہ اِس میں کسی سہو و نسیان کا کوئی امکان باقی نہ رہے گا اور اپنی آخری صورت میں یہ بالکل محفوظ آپ کے حوالے کر دیا جائے گا۔
ثانیاً ، آپ کو بتایا گیا ہے کہ یہ دوسری قراءت قرآن کو جمع کر کے ایک کتاب کی صورت میں مرتب کر دینے کے بعد کی جائے گی اور اِس کے ساتھ ہی آپ اِس بات کے پابند ہو جائیں گے کہ آیندہ اِسی قراءت کی پیروی کریں ۔ اِس کے بعد اِس سے پہلے کی قراءت کے مطابق اِس کو پڑھنا آپ کے لیے جائز نہ ہو گا۔
ثالثاً ، یہ بتایا گیا ہے کہ قرآن کے کسی حکم سے متعلق اگر شرح و وضاحت کی ضرورت ہو گی تو وہ بھی اِس موقع پر کر دی جائے گی اور اِس طرح یہ کتاب خود اِس کے نازل کرنے والے ہی کی طرف سے جمع و ترتیب اور تفہیم و تبیین کے بعد ہر لحاظ سے مکمل ہو جائے گی۔
قرآن کی یہی آخری قراءت ہے جسے اصطلاح میں ”عرضۂ اخیرہ ” کی قراءت کہا جاتا ہے ۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جبریل امین ہر سال جتنا قرآن نازل ہو جاتا تھا ، رمضان کے مہینے میں اُسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھ کر سناتے تھے۔ آپ کی زندگی کے آخری سال میں ، جب یہ عرضۂ اخیرہ کی قراءت ہوئی تو اُنھوں نے اِسے دو مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھ کر سنایا ۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر سال ایک مرتبہ قرآن پڑ ھ کر سنایا جاتا تھا ، لیکن آپ کی وفات کے سال یہ دو مرتبہ آپ کو سنایا گیا۔’ (بخاری ، رقم 8994) ” ، (میزان:27-28)

کیا اس تفصیل کے بعد یہ ماننے کی گنجایش ہے کہ قرآن کریم کے کسی جز کو بکری کھا گئی اور قرآن پاک کا یہ حصہ ضائع ہو گیا۔
بخاری کی روایت
بخاری کی جس روایت کا آپ نے حوالہ دیا ہے وہ حضرت عمر کا ایک طویل خطبہ ہے جسے حضرت عبد اللہ ابن عباس نے روایت کیا ہے ۔ اس خطبے کا آیت رجم سے متعلق جز اس طرح ہے:

”اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا اور ان پر کتاب اتاری۔ رجم کی آیت بھی اس کتاب میں تھی جسے اللہ نے اتارا۔ ہم نے اس آیت (رجم) کو پڑ ھا ، سمجھا اور یاد رکھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کی سزا دی اور آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کی سزا دی۔ کچھ زمانہ گزرنے کے بعد مجھے اندیشہ ہے کہ کوئی یہ نہ کہہ دے کہ کتاب اللہ میں تو رجم کی آیت نہیں ہے اور خدا کے نازل کردہ فریضہ کو چھوڑ نے کی وجہ سے لوگ گمراہی میں مبتلا ہو جائیں ، حالانکہ اللہ کی کتاب میں رجم ثابت ہے۔” (بخاری، رقم6442 ، باب رجم الحبلیٰ من الزنا اذا احصنت)

اس روایت میں جس آیۂ رجم کا ذکر ہو ا ہے ، امت میں اس پر بحث حفاظتِ قرآن کریم کے پہلو سے نہیں ہوتی ، بلکہ ناسخ و منسوخ اور رجم کی سزا کے حوالے سے ہوتی ہے۔ ظاہر ہے یہ مسئلہ حفظ قرآن کا نہیں ہے بلکہ زیر بحث مسئلہ رجم کی سزا کا ہے۔ اوپر میزان کا جو اقتباس ہم نے نقل کیا ہے اس میں قرآن کریم کے حوالے سے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قرآن کریم کے جس حکم یا آیت کو ختم کرنا مطلوب ہو گا ، اسے آخری قراءت سے ہٹادیا جائے گا ، اس لیے اس حدیث کی رو سے حفاظت قرآن کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔
باقی رہا یہ مسئلہ کہ حضرت عمر کی اس بات کا مطلب کیا ہے تو ہمارا تاثر یہ ہے کہ سیدنا عمر نے جو بات کہی وہ صرف اتنی تھی کہ قرآن کریم میں رجم کا حکم بیان ہوا ہے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ یہ سمجھنے لگیں کہ قرآن پاک اس حکم سے خالی ہے ۔ سیدناعمر کی یہ بات بالکل ٹھیک ہے۔ قرآن کریم میں رجم کا حکم پایا جاتا ہے ۔ یہ حکم سورہ مائدہ5: 33-34میں موجود ہے ۔ آیت کا ترجمہ درج ذیل ہے:
”وہ لوگ جو اللہ اور رسول سے لڑ تے اور ملک میں فساد برپا کرنے کے لیے تگ و دو کرتے ہیں ، اُن کی سزا بس یہ ہے کہ عبرت ناک طریقے سے قتل کیے جائیں یا سولی چڑ ھائے جائیں یا اُن کے ہاتھ پاؤں بے ترتیب کاٹ ڈالے جائیں یا وہ جلا وطن کر دیے جائیں۔ یہ اُن کے لیے اِس دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں اُن کے لیے بڑ ی سزا ہے ، مگر جو لوگ توبہ کر لیں ، اِس سے پہلے کہ تم اُن پر قابو پاؤ تو سمجھ لو کہ اللہ مغفرت فرمانے والا ہے ، اُس کی شفقت ابدی ہے۔” ، (مائدہ5: 33-34)
امام فراہی اور ان کے تلامذہ امین احسن اصلاحی اور استاذ گرامی جاوید احمد صاحب غامدی کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اس آیت میں موجود لفظ ‘تقتیل ‘( عبرت ناک طریقے سے قتل ) رجم پر دلالت کرتا ہے۔ استاذ گرامی اپنی کتاب کے باب حدود و تعزیرات میں تقتیل کے عنوان سے ان آیات کی شرح میں لکھتے ہیں:

”آیت میں اِس سزا کے لیے ‘اَنْ یُّقَتَّلُوْا’ کے الفاظ آئے ہیں ۔اِن کے معنی یہ ہیں کہ اللہ و رسول سے محاربہ یا فساد فی الارض کے یہ مجرم صرف قتل ہی نہیں ، بلکہ عبرت ناک طریقے سے قتل کر دیے جائیں۔ اِس کی دلیل یہ ہے کہ ‘قتل’ یہاں ‘تقتیل’ کی صورت میں آیا ہے ۔عربیت کے ادا شناس جانتے ہیں کہ بنا میں یہ زیادت نفس فعل میں شدت اور مبالغہ کے لیے ہوئی ہے۔ اِس وجہ سے ‘تقتیل’ یہاں ‘شر تقتیل’ کے مفہوم میں ہے۔ چنانچہ حکم کا تقاضا یہ ہو گا کہ اِن مجرموں کو ایسے طریقے سے قتل کیا جائے جو دوسروں کے لیے عبرت انگیز اور سبق آموز ہو ۔رجم ، یعنی سنگ ساری بھی ، ہمارے نزدیک اِسی کے تحت داخل ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں اوباشی کے بعض مجرموں کو یہ سزا اِسی آیت کے حکم کی پیروی میں دی ہے ۔” (میزان صفحہ 613 )
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں معلوم ہے کہ آپ نے اپنے زمانے میں اوباشی کے اُن مجرموں کو جو اپنے حالات اور جرم کی نوعیت کے لحاظ سے کسی حد تک رعایت کے مستحق تھے ، مائدہ کی اِسی آیت کے تحت جلا وطنی کی سزا دی اور وہ مجرم جنھیں کوئی رعایت دینا ممکن نہ تھا ، اِسی آیت کے تحت رجم کر دیے گئے۔
زنا اور اوباشی کے بعض مجرموں کے شادی شدہ اور غیرشادی شدہ ہونے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استفسار بھی اِسی قبیل سے تھا جسے فقہا نے غلطی سے مناط حکم سمجھا اور اِس کی بنا پر سورۂ نور کی آیۂ جلد کو شادی شدہ زانیوں کے حق میں منسوخ قرار دے دیا ۔گویا معاملے کی نوعیت یہ تھی کہ اِس طرح کے مجرموں کو سزا دیتے وقت ، اُن کے لیے کسی رعایت کا فیصلہ کرنے کے لیے دوسری بہت سی چیزوں کے ساتھ یہ بھی دیکھا جائے کہ وہ شادی شدہ ہیں یا نہیں ، لیکن اُنھوں نے اِس ”یہ بھی ” کو ”یہی” قرار دیا اور اِس طرح ایک ایسی بے جوڑ چیز اسلام کے ضابطۂ حدود و تعزیرات میں داخل کر دی جو عقل و نقل ، دونوں کی رو سے بالکل بے بنیاد ہے ۔” ، (میزان صفحہ 614 )

اس سے آپ پر یہ بات بھی واضح ہوگئی ہو گی کہ ہمارے اساتذہ رجم کی سزا کے قائل بھی ہیں اور قرآن کریم میں اس کی بنیاد کے بھی ، البتہ ان کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سزا کا طلاق شادی شدہ زانی پر نہیں بلکہ اوباشی اور قحبہ گری کے مجرموں پر کیا تھا۔ یہاں آیۂ رجم کے ان الفاظ پر تبصرہ کرنا بھی بے محل نہ ہو گا جو بعض دیگر روایات میں بیان ہوئے ہیں ۔ موطا کی روایت ہے:

”سعید بن مسیب کی روایت ہے ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ خبردار، آیت رجم کا انکار کر کے ہلاکت میں نہ پڑ نا کہ کوئی یہ کہہ دے کہ ہم زنا کی دونوں حدوں کو کتاب اللہ میں نہیں پاتے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کی سزا دی اور ہم نے بھی یہ سزا دی۔ خدا کی قسم! اگر مجھے اس الزام کا اندیشہ نہ ہوتا کہ عمر بن الخطاب نے کتاب اللہ میں زیادتی کی ہے تو میں یہ آیت (قرآن میں ) لکھ دیتا: الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فار جمو ھا البتۃ (بوڑ ھا اور بوڑ ھی جب زنا کریں تو دونوں کو ضرور رجم کر دو) بے شک یہ ایک ایسی آیت ہے جسے ہم نے پڑ ھا۔ (موطا امام مالک ، رقم 1506، باب الزانی المحصن یرجم)

ہمارے نزدیک اس طرح کے الفاظ کی نسبت حضرت عمر کی طرف درست نہیں۔ اس روایت میں بیان کردہ آیت کے الفاظ نہ تو قرآن کریم کے معجزانہ کلام سے کوئی مناسبت رکھتے ہیں نہ اس کا مفہوم وہ بات بیان کرتا ہے جس مقصدکے لیے یہ روایت پیش کی جاتی ہے یعنی رجم کا حکم شادی شدہ مرد و زن کے لیے خاص ہے ۔ ”بوڑ ھا اور بوڑ ھی جب زنا کریں تو دونوں کو ضرور رجم کر دو” کے الفاظ سے جو حکم نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ رجم کی سزا بوڑ ھے لوگوں کے لیے ہے۔ یہ آیت اگرواقعی نازل ہوئی تھی تو امت میں یہ بحث نہیں ہونی چاہیے تھی کہ شادی شدہ مرد و عورت زانی کی سزا رجم ہے اور غیر شادی شدہ کی سو کوڑ ے بلکہ بحث یہ ہونی چاہیے تھی کہ بوڑ ھوں کی سزا رجم ہے اور جوانوں کی سزا سو کوڑ ے ۔ ظاہر ہے یہ ایک ایسی بات ہے جس کا نہ اس امت میں کوئی قائل ہے نہ اس بنیاد پر رجم کی سزا کبھی اس امت کے اہل علم میں زیر بحث آئی ہے ۔ ساری بحث اس پر ہوتی ہے کہ شادی شدہ مرد و عورت زانی کی سزا رجم ہے ، جبکہ یہاں بوڑ ھے اور بوڑ ھی کا ذکر ہے جو عین ممکن ہیں کہ غیر شادی شدہ ہوں ۔اس لیے ہمارے نزدیک یہ الفاظ اصل بات میں کسی راوی کا الحاق اور اضافہ ہیں ۔

مجیب: Rehan Ahmed Yusufi

اشاعت اول: 2016-02-12

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading