ڈپريشن ميں طلاق دينا

22

سوال

ميرے شوہر ڈپريشن کے مريض ہيں۔ انھوں نے مجھ سے جھگڑتے ہوئے ميرے مطالبے پر تين بار طلاق کے الفاظ ادا کر ديے۔ اس کے بعد انھوں نے رجوع کر ليا اور مجھے يہ بتايا کہ انہوں نے طلاق کے الفاظ ارادۃً ادا ہي نہيں کيے تھے، بلکہ صرف مجھے ڈرانے کے ليے يہ الفاظ بولے تھے اور ان کے علم کے مطابق قرآن مجيد کے نزديک اس طرح سے طلاق واقع نہيں ہوتي۔ پھر جب بعض علما سے رجوع کيا گيا تو انھوں نے يہ فتوي ديا ہے کہ اس صورت ميں ايک طلاق واقع ہو چکي ہے۔ طلاق کے اس واقعے کو گزرے چار سال ہو چکے ہيں۔ ميں اس کے بارے ميں غامدي صاحب کي رائے جاننا چاہتي ہوں۔

جواب

استاذ محترم غامدي صاحب نے آپ کا يہ واقعہ پڑھ کر فرمايا ہے کہ اگر آپ کے شوہر کا يہ بيان کہ “ميں نے طلاق کے الفاظ ارادۃً ادا ہي نہيں کيے تھے ، بلکہ صرف تمھيں ڈرانے کے ليے بولے تھے” بالکل درست اور ہر شک و شبہ سے بالا ہے ، يعني وہ حلفاً ايسا کہہ سکتے ہيں تو پھر صحيح بات يہ ہے کہ يہ طلاق واقع ہي نہيں ہوئي۔ چنانچہ آپ تسلي سے ان کے ساتھ زندگي بسر کريں۔

البتہ اگر دوسروں کي باتوں يا کسي اور وجہ سے آپ خود کسي تردد ميں مبتلا ہيں تو پھر آپ کے ليے يہ بات شايد بہتر ہو گي کہ آپ ايک طلاق واقع ہونے والا فتوي تسليم کرتے ہوئے احتياطا اپنے شوہر سے دوبارہ نکاح کر ليں۔ تاہم يہ واضح رہے کہ يہ کوئي فقہي و شرعي حل نہيں ہے ، بلکہ اس تجويز کا مقصد محض آپ کے تردد کو دور کرنا ہے۔

مجیب: Muhammad Rafi Mufti

اشاعت اول: 2015-07-11

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading