سوال
میرا سوال یہ کے کہ کیا ہم ہمیشہ دوسروں کے ظلم معاف کرتے رہیں؟ اس طرح تو ظلم کبھی ختم نہ ہو گا۔ خاص طور پر سسرال والے تو اس میں حد ہی کر گرزتے ہیں۔ ہم ظلم کے خلاف آواز کیسے اٹھائیں؟ میرا دوسر سوال یہ ہے کہ کیا کوئی شخص اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں وقف کر سکتا ہے؟ کیا یہ جائز ہو گا کہ وہ وارثوں کے لئے بھی کچھ نہ چھوڑے؟
جواب
بلا شبہ معاف کرنا ایک بہت بڑی نیکی ہے۔ یہ ظلم کے خاتمہ کی ایک بڑی اچھی تدبیر بھی ہے۔ اس سے فریق مخالف کے دل میں ندامت پیدا ہوتی ہے اور وہ اپنے رویہ پر غور کرتا ہے۔ البتہ ایسا بھی ممکن ہے کہ وہ اس کے مقابلہ میں مزید ظلم کرتا جائے۔ اس لئے ضروری ہے اس فرد کو دیکھتے ہوئے کوئی طریقہ اختیار کیا جائے۔ یہ ضروری نہیں کہ انسان ظلم سہتا جائے۔ احتجاج بھی کیا جا سکتا ہے اور ظالم کو یہ احساس بھی دلایا جائے کہ وہ ظلم کر رہا ہے۔ خاندانی مسائل میں یہ بہتر ہوتا ہے کہ کسی ایسے فرد کی راہنمائی اور مدد حاصل کی جائے جس کی بات فریقین کے لئےسننا اور ماننا ممکن اور آسان ہو۔ اس طرح ایک حکم کے سامنے بات رکھ کر معاملہ کا فیصلہ کیا جائے۔
جہاں تک اپنی ساری دولت اور مال اللہ کی راہ میں دینے کا تعلق ہے تو یہ اس صورت میں جائز نہیں جب ایسا کرنا ورثاء پر ظلم پر منتج ہو۔ لہذا پہلے ورثاء کا خیال رکھا جائے اور جو بچ جائے وہ اللہ کی راہ میں د ے دیا جائے۔
مجیب: Tariq Mahmood Hashmi
اشاعت اول: 2015-10-05