سوال
قرآن و حدیث کے مطابق مرد وں کو اپنی شرم گاہوں اور عورتوں کو اپنی شرم گاہوں اور سینے کے علاوہ جسم کے اور کون کون سے حصے ڈھانپنے چاہییں؟
جواب
قرآن مجید جس معاشرے میں نازل ہوا تھا، وہ نہ صرف لباس پہننے والوں کا معاشرہ تھا، بلکہ ان کے ہاں عورتوں کے جسم ڈھانپنے کا یہ عالم تھا کہ ان کی کنواریوں کی پنڈلیاں کسی بڑی آفت ہی کے موقعے پر غیر لوگوں کے سامنے کھلتی تھیں۔ چنانچہ اس سوسائٹی میں انسانوں کو فحاشی سے بچانے، زنا جیسے قبیح فعل سے بہت دور رکھنے اور ان کے دلوں کو پاکیزہ بنانے کے لیے مرد و زن کے اختلاط کے مواقع پر مردوں اور عورتوں، دونوں کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ ایک دوسرے سے غض بصر کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور عورتوں کو اس کے ساتھ مزید یہ بھی کہا گیا کہ وہ اپنے سر کی اوڑھنیوں سے اپنے سینے پر اچھی طرح سے بکل مار لیں، اپنی زینت کی نمایش نہ کریں اور زمین پر اس طرح سے پاؤں مارتی ہوئی بھی نہ چلیں کہ ان کی چھپی ہوئی زینت ظاہر ہو جائے۔ قرآن کے ان احکام کا مطلب یہ ہے کہ مومن مرد اور مومنہ عورتیں اپنے جسموں کے ہر اس حصے کو ڈھانپیں جسے شیطان کھلوا کر ان کو فحاشی کی طرف لے جانا اور انھیں زنا کے قریب کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ ہمارے نزدیک قرآن مجید کی مجموعی تعلیم اور اس کے ان احکام کے بعد عورتوں کے لیے، مثلاً یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے کندھے، بازو اور پنڈلیاں یا اپنا پیٹ اور کمر لوگوں کے سامنے نمایاں کرتی پھریں۔
لباس کے بارے میں صحیح نقطہ نظر کیا ہے؟ اسے استاذ محترم غامدی صاحب نے اپنی کتاب ”میزان” کے باب”اخلاقیات” میں ”عفت و عصمت” کے عنوان کے تحت درج ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے:
”…سورہ نور میں مرد و زن کے اختلاط کے جو آداب بیان ہوئے ہیں، وہ انسان کو اِسی طرح کی چیزوں سے بچانے کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔ اُن کا خلاصہ یہ ہے کہ مرد وعورت ، دونوں اپنے جسمانی اور نفسیاتی تقاضوں کے لحاظ سے اپنی نگاہوں کو زیادہ سے زیادہ بچا کر اوراپنے جسم میں اندیشے کی جگہوں کو زیادہ سے زیادہ ڈھانپ کررکھیں اورکوئی ایسی بات نہ کریں جو ایک دوسرے کے صنفی جذبات کو برانگیختہ کرنے والی ہو۔اِس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان جب کسی معاشرے میں زناکو عام کرنا چاہتاہے تو وہ اپنی تاخت کی ابتدا بالعموم اِنھی چیزوں سے کرتا ہے۔قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم و حوا پر بھی وہ اِسی راستے سے حملہ آور ہوا تھا۔ چنانچہ فرمایا ہے:
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ، لاَ یَفْتِنَنَّکُمُ الشَّیْطٰنُ کَمَآ اَخْرَجَ اَبَوَیْکُمْ مِّنَ الْجَنَّۃِ، یَنْزِعُ عَنْہُمَا لِبَاسَہُمَا لِیُرِیَہُمَا سَوْاٰتِہِمَا، اِنَّہ، یَرٰکُمْ ہُوَ وَقَبِیْلُہ،، مِنْ حَیْثُ لاَ تَرَوْنَہُمْ، اِنَّا جَعَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ اَوْلِیَآءَ لِلَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ.(الاعراف٧:٢٧)
”آدم کے بیٹو، ایسا نہ ہو کہ شیطان تمھیں پھر اسی طرح فتنے میں مبتلا کر دے، جس طرح اُس نے تمھارے والدین کو اُن کے لباس اتروا کر کہ اُن کی شرم گاہیں اُن کے سامنے کھول دے، اُس باغ سے نکلوا دیا تھا (جس میں وہ رہ رہے تھے)۔ وہ اور اس کے ساتھی تمھیں وہاں سے دیکھتے ہیں، جہاں سے تم اُنھیں نہیںدیکھ سکتے۔ اِس طرح کے شیطانوں کو (البتہ)، ہم نے اُنھی لوگوں کا ساتھی بنایا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔”
یہ حملہ کس طرح ہوتا ہے؟ استاذ امام لکھتے ہیں:
”… وہ اپنی وسوسہ اندازیوں سے پہلے لوگوں کو اُس لباس تقویٰ و خشیت سے محروم کرتاہے جو اللہ نے بنی آدم کے لےے اِس ظاہری لباس کے ساتھ ایک تشریف باطنی کی حیثیت سے اتاراہے …جب یہ باطنی جامہ اتر جاتا ہے تو وہ حیا ختم ہو جاتی ہے جو اِس ظاہری لباس کی اصل محرک ہے۔ پھر یہ ظاہری لباس ایک بوجھ معلوم ہونے لگتاہے۔ بے حیائی صنفی اعضا میں، جن کا چھپانا تقاضاے فطرت ہے، عریاں ہونے کے لیے تڑپ پیدا کرتی ہے، پھر فیشن اس کو سہارا دیتا ہے اوروہ لباس کی تراش خراش میں نت نئی اختراعات سے ایسے ایسے اسلوب پیدا کرتا ہے کہ آدم کے بیٹے اورحوا کی بیٹیاں کپڑے پہن کر بھی لباس کے بنیادی مقصد ،یعنی ستر پوشی کے اعتبار سے گویا ننگے ہی رہتے ہےں۔پھر لباس میں صرف زینت اورآرایش کا پہلو باقی رہ جاتا ہے اور اُس میں بھی اصل مدعا یہ ہوتاہے کہ بے حیائی زیادہ سے زیادہ دل کش زاویہ سے نمایاں ہو۔ پھر آہستہ آہستہ عقل اِس طرح ماؤف ہوجاتی ہے کہ عریانی تہذیب کا نام پاتی ہے اور ساتر لباس وحشت و دقیانوسیت کا۔ پھر پڑھے لکھے شیاطین اٹھتے ہیں اور تاریخ کی روشنی میں یہ فلسفہ پیدا کرتے ہیں کہ انسان کی اصل فطرت تو عریانی ہی ہے، لباس تو اس نے رسوم و رواج کی پابندیوں کے تحت اختیار کیا ہے۔ یہ مرحلہ ہے جب دیدوں کا پانی مر جاتا ہے اورپورا تمدن شہوانیت کے زہر سے مسموم ہوجاتا ہے۔” (تدبرقرآن٣/٢٤٦ ) ”
(ميزان: ٢٢٦-٢٢٧ )
مجیب: Muhammad Rafi Mufti
اشاعت اول: 2015-07-01