سوال
میرا سوال جناب طالب محسن کے ایک جواب سے متعلق ہے، جو کہ ویب سائٹ پر”مرد کا ستر” کے عنوان سے پوسٹ کیا گیا ہے۔ اس میں ایک پیرا گراف میں جناب مصنف نے یہ لکھا ہے کہ کلچرز کے مختلف ہونے کی صورت میں ہمیں اس کلچر کو ترجیح دینی چاہیے جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا۔ کیوں کہ اسے خدا کی طرف سے تصویب حاصل ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ کلچر خدا کی طرف سے وحی میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تصویب ہوا تھا؟ برائے مہربانی وضاحت فرمائیں۔
جواب
امید ہے آپ بخیر ہوں گے۔ آپ نے ستر کے حوالے سے میرے جواپ پر ایک سوال کیا ہے۔
میں نے یہ عرض کیا تھا کہ کلچرل ایشوز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے کلچر کو معیار کی حیثیت حاصل ہے اس لیے کہ اسے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویب حاصل ہے۔ آپ کا سوال یہ ہے کہ اگر یہ بات ٹھیک ہے تو کیا مثال کے طور پر اس زمانے کے لباس کو ہمارے لیے ایک معیار کی حیثیت حاصل ہو گی۔جہاں تک لباس کی تراش خراش کا تعلق ہے اس میں بے شک ہر معاشرہ اپنے تصور زیب و زینت اور موسمی ضروریات وغیرہ کو ملحوظ رکھنے میں آزاد ہے۔ اصل سوال جسم کو کس حد تک ڈھکا رہنا چاہیے کا ہے۔ اس میں حضور کے زمانے کے تصور کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے اس لیے وہاں اگر کوئی خرابی ہوتی تو وہ زیر بحث آ جاتی۔
مزید برآں یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ قرآن میں پردے کے احکام اس لباس کو مان کر دیے گئے ہیں۔
مجیب: Talib Mohsin
اشاعت اول: 2015-07-15