امیر اور غریب کے لیے یکساں شرح زکوٰۃ

18

سوال

شرح زکوٰۃ امیر اور غریب آدمی کے لیے یکساں کیوں ہے؟ غریب آدمی تو بہت مشکل سے اپنے گھر ہی کا خرچ چلاتا ہے، جبکہ دولت مند لوگوں کی آمدنی کروڑوں اور اربوں میں ہوتی ہے۔ چنانچہ حکومت جو ٹیکس لگاتی ہے، اس کی شرح امیر اور غریب کے حوالے سے یکساں نہیں ہوتی، لیکن زکوٰۃ کی شرح کا معاملہ یہ نہیں ہے، کیوں؟

جواب

پہلی بات تو یہ ذہن میں رہے کہ زکوٰۃ کسی غریب آدمی سے ہرگز نہیں لی جاتی، بلکہ یہ اس کو دی جاتی ہے۔ اسلام کے نزدیک اصول یہ ہے کہ ہر صاحب نصاب آدمی کو زکوٰۃ دینا ہوگی اور جو شخص بھی ان لوگوں کے دائرے میں آ جائے جن پر زکوٰۃ صرف کرنے کا حکم دیا گیا ہے، وہ اپنی ضروریات کے لیے زکوٰۃ لے سکتا ہے۔ لہٰذا، ایسا شخص جو صاحب نصاب ہے، لیکن اسے خود بھی زکوٰۃ کی ضرورت ہے تو ہمارے خیال میں وہ زکوٰۃ لے بھی سکتا ہے۔ جبکہ بعض فقہا کے نزدیک صاحب نصاب کے لیے زکوٰۃ لینا جائز نہیں ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ زکوٰۃ اپنی حقیقت میں عبادت ہے۔ لہٰذا، اسے ٹیکس کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ جو لوگ اس عبادت کے مکلف قرار پائیں گے، یعنی صاحب نصاب ہوں گے ، ان کے لیے شرحوں کا فرق موزوں نہیں، بلکہ وہ یکساں ہی ہونی چاہییں۔ البتہ اگر ان کی آمدنی کروڑوں اور اربوں میں ہو گی تو زکوٰۃ بھی اسی حساب سے کروڑوں یا لاکھوں ہی میں ہو گی۔ لہٰذا، معاملہ عادلانہ ہی رہے گا۔ اور جو لوگ صاحب نصاب ہوتے ہوئے کسی وجہ سے زکوٰۃ کے مستحق ہو جائیں گے، وہ زکوٰۃ دیتے ہوئے زکوٰۃ لے بھی سکیں گے۔

مجیب: Muhammad Rafi Mufti

اشاعت اول: 2015-07-11

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading