سوال
احادیث میں ہے:
المؤمن غر کریم.
لا یلدغ المؤمن من جحر واحد مرتین.
اتقوا فراسة المؤمن فإنہ یری بنور ربہ.
بظاہر ان روایات میں تناقض ہے۔ ان روایتوں کوکس طرح جمع کریں گے؟
جواب
دونوں باتوں کا محل الگ الگ ہے۔ شارحین نے بالکل صحیح بیان کیا ہے کہ اس سے فریب اور چالاکی کی نفی کی گئی ہے۔ یہ مراد نہیں ہے کہ مومن سمجھ دار نہیں ہوتا۔ مومن خدا کے حضور جواب دہی کے احساس کے تحت فریب اور سازش جیسے مکروہ کاموں سے گریزاں رہتا ہے۔ اسی طرح وہ حسن ظن اور خیر خواہی کے جذبے کے تحت خود غرضی اور موقع پرستی جیسے عوارض سے بھی بلند ہو جاتا ہے ، اسی وجہ سے وہ اپنے رویے اور عمل میں ایک سادہ آدمی نظر آتا ہے۔ غالباً یہی بات ہے جس کے لیے ‘غر کریم’ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔ دوسری روایتوں میں مومن کے سمجھ دار ہونے کے پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی سمجھ کا اعلیٰ ترین اظہار اخلاق کی درستی اور جذبات کے صحیح رخ پر استوار ہونے میں ہے۔ دین کی تعلیمات دل و دماغ میں اتر جائیں اور عمل اس کے مطابق ڈھل جائے تو وہ فراست حاصل ہو جاتی ہے جسے فراست مومن سے تعبیر کیا گیا ہے۔ باقی رہے دنیا کے شر تو اللہ تعالیٰ ان سے حفاظت کا بند وبست ایسے صالحین کے لیے اپنی جناب سے کرتے رہتے ہیں۔
مجیب: Talib Mohsin
اشاعت اول: 2015-07-30