ازواج اور اولاد کا دشمن ہونا

19

سوال

قرآن مجید میں یہ کہا گیا ہے کہ تمھاری بیویوں اور تمھارے بچوں میں سے بعض تمھارے دشمن ہیں،اس بات کا کیا مطلب ہے؟

جواب

قرآن مجید میں یہ بات ان الفاظ میں کہی گئی ہے:

ایمان والو، تمھاری بیویوں اور تمھاری اولاد میں سے بعض تمھارے لیے دشمن ہیں تو ان سے بچ کر رہو۔ اور اگر تم انھیں معاف کرو گے اور درگذر کرو گے اور بخشو گے تو اللہ غفور و رحیم ہے۔ تمھارے مال اور تمھاری اولاد تمھارے لیے امتحان ہیں اور اللہ کے پاس بہت بڑا اجر ہے۔ (التغابن٦٤:١٤-١٥)

پہلی بات یہ ہے کہ ان آیات میں ازواج اور اولاد کے لیے دشمن کا لفظ حقیقی معنوں میں نہیں، بلکہ نتیجے کے حوالے سے بولا گیا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ان میں دراصل، انسان کو اس بڑی آزمایش سے متنبہ فرمایا گیا ہے کہ بعض اوقات خود اس کے بیوی اور بچے اسے خدا کے حقوق کی ادائیگی سے روکنے والے بن جاتے ہیں، خواہ وہ یہ کام خیر خواہانہ ذہن سے کر رہے ہوں یا آدمی خودان کی محبت میں خدا سے غافل ہو رہا ہو، بہرحال دونوں صورتوں میں چونکہ اِس کا نتیجہ اُس کے لیے ہلاکت خیز ہوتا ہے، اس لیے ان کو دشمن کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چنانچہ انسان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ان کی محبت میں گرفتار ہو کر خدا کے حقوق ہی سے غافل ہوجانے سے ضرور بچ کر رہے۔

مجیب: Muhammad Rafi Mufti

اشاعت اول: 2015-07-11

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading