بینک کا منافع سود کیوں؟

25

سوال

نفع و نقصان میں شراکت کے تصور سے کی گئی سرمایہ کاری پر ملنے والا منافع اگر سود نہیں تو بینک میں جمع شدہ رقم پر ملنے والے منافع کو سود کیسے کہا جا سکتا ہے، جبکہ بینک کے دیوالیہ ہو جانے کا امکان ہوتا ہے اور ایسی صورت میں رقوم جمع کرانے والوں کو بینک کے ساتھ نقصان میں شریک ہونا پڑتا ہے۔ اسی طرح اگر بینک کے ڈپازٹ ایک خاص حد سے کم ہو جائیں، تب بھی اکاؤنٹ ہولڈرز کو کچھ گھاٹا اٹھانا پڑتا ہے۔ چنانچہ اس صورت میں یہ کیوں نہیں کہا جاسکتا کہ اکاؤنٹ ہولڈرز بینک کے نفع و نقصان میں شریک ہیں اور انھیں ملنے والا منافع سود نہیں ہے؟

جواب

بینک اپنے اکاؤنٹ ہولڈرز کو اپنے کاروبار میں نفع و نقصان کی شرائط پر شریک نہیں کرتا، بلکہ وہ انھیں اُن کی جمع شدہ رقوم پر متعین مدت میں، متعین اضافہ کی یقین دہانی کراتا ہے۔ اسی کو سود اور ربا کہتے ہیں۔

بینک کے دیوالیہ ہو جانے پر اکاؤنٹ ہولڈرز کی رقموں کا ٹوٹ جانا یا ان کو نقصان ہو جانا یا اس طرح کی بعض دوسری صورتوں میں انھیں گھاٹا پڑنا، کاروبار کا نفع و نقصان نہیں ہے، بلکہ یہ بینک سے متعلق افراد پر آفات و حوادث کی صورت میں ہونے والے اثرات ہیں۔ بینک بہرحال، سودی نظام پر مبنی ادارہ ہے۔ اسے معلوم ہے کہ نفع و نقصان میں شراکت کیا ہوتی ہے۔ وہ نفع و نقصان کی شرائط پر لوگوں کو اپنے ساتھ شریک نہیں کرتا، بلکہ سود کے اصول پر ان سے رقوم لیتا اور انھیں دیتا ہے۔ چنانچہ اس طرح کی باتوں سے خود کو دھوکا نہیں دیناچاہیے۔

مجیب: Muhammad Rafi Mufti

اشاعت اول: 2015-07-08

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading