سوال
آپ کے نزدیک اگر میڈیکل ٹیسٹ سے حمل کی صورت حال واضح ہوجائے تو عدت کی مدت کم ہو سکتی ہے۔ عرض یہ ہے کہ میڈیکل رپورٹ غلط بھی ہو سکتی ہے۔ چنانچہ بعد میں ہونے والے بچے کی ولدیت زیر بحث آسکتی ہے ، اس لیے نص میں بیان کردہ مدت ہی ملحوظ رکھنا درست لگتا ہے۔ اجتہاد کا دروازہ ضرور کھلا رہنا چاہیے ، لیکن اس حد تک نہیں کہ نص کے برعکس آرا قائم ہونے لگیں۔
جواب
قرآن مجید ہی سے واضح ہے کہ عدت رکھنے کی وجہ صرف اور صرف حمل کا تعین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود قرآن مجید میں اس مطلقہ کی کوئی عدت مقرر نہیں کی گئی جسے رخصتی سے قبل طلاق دے دی گئی ہو۔ لہٰذا اگر حمل نہ ہونا قطعی ہوجائے تو عدت کے ختم کرنے میں نص کی کوئی مخالفت نہیں ہے۔
آپ کی توضیح کا مطلب یہ ہے کہ میڈیکل رپورٹ میں غلطی کا امکان ہے اور اطبا کی راے یہی ہے کہ یہ رپورٹ قطعی نہیں ہوتی۔ استاد محترم کی راے اس راے پر مبنی ہے کہ میڈیکل رپورٹ قطعی ہوتی ہے۔ باقی رہا جان بوجھ کر غلط رپورٹ بنانا تو اس امکان کے ہوتے ہوئے آپ یہ راے تو رکھ سکتے ہیں کہ احتیاطاً عدت کی مدت پوری کرنا ہی بہتر ہے، لیکن یہ بات کہ میڈیکل رپورٹ کی بنیاد پر عدت ختم کرنے سے نص کی مخالفت ہو جاتی ہے ، درست نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس معاملے میں غامدی صاحب کو ان لوگوں سے اختلاف ہے جو ہر حال میں عدت کو پورا کرنے کا تقاضا کرتے ہیں۔ دونوں رائیں مبنی بر نص ہیں۔ نص کے فہم میں اختلاف ہے۔ ایک گروہ کے نزدیک نص میں جو حکم بیان ہوا ہے، وہ پورا کیا جائے گا اگرچہ عدم حمل یقینی ہو۔ دوسرے گروہ کے نزدیک جومقصد پیش نظر تھا، حاصل ہو چکا ہے ، اب مدت پوری کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
البتہ ، اگر یہی ثابت ہو جائے کہ میڈیکل رپورٹ قطعی نہیں ہوتی تو اس کی بنیاد پر عدت ختم کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ میری معلومات کی حدتک موجودہ میڈیکل سائنس اس معاملے میں قطعی راے دے سکتی ہے۔
مجیب: Talib Mohsin
اشاعت اول: 2015-08-02