غیر سید لڑکے سے شادی اور سید کا زکوٰۃ لینےکا معاملہ

23

سوال

کیا ایک سید لڑکی کی غیر سید سے شادی ہو سکتی ہے، حالاں کہ سید زکوٰۃ نہیں لے سکتا۔ اگر یہ شادی ہو جائے تو ان کے بچوں کا کیا ہو گا۔ اگر وہ مستحق ہوں تو کس بنا پر زکوٰۃ لیں گے ، اس لیے کہ وہ غیر سید کی اولاد ہیں ، جبکہ روز قیامت انھیں ماں ہی کے نام سے پکارا جانا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی خاندان میں متضاد قواعد رائج ہوں۔ ان بچوں کو سید کہا جائے گا یا نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کی خصوصی تکریم ہے۔ بچوں میں والد اور والدہ ،دونوں کی خصوصیات منتقل ہوتی ہیں۔ ان بچوں کی حیثیت کیا ہے؟

جواب

سید اور غیر سید کی باہم شادی ہو سکتی ہے۔ پچھلی صدیوں میں اس خاندان کی ہر شاخ میں یہ کام ہوتا رہا ہے اور آیندہ بھی جاری رہے گا۔ شادی نہ کرنے کا تصور برصغیر میں جاگیردارانہ کلچر کی پیداوار ہے۔ میرے علم کی حد تک عربوں میں اس طرح کا کوئی تصور نہیں تھا اور نہ شاید اب پایا جاتا ہے۔ اسلام کسی ہستی کے ساتھ وابستگی کی بنا پر کسی فضیلت کو روا نہیں رکھتا ، جہاں تک سید ہونے کے مدعی شخص کی عزت کا تعلق ہے تو یہ مسلمانوں کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا مظہر ہے۔ اس سے مسلمانوں کو تو فائدہ حاصل ہوتا ہے ، لیکن اس کا اس سید کو کوئی فائدہ ملنے والا نہیں ہے۔

باقی رہا آپ کا یہ اشکال کہ سید زکوٰۃ نہیں لے سکتا۔ چنانچہ یہ بچے زکوٰۃ لے سکیں گے یا نہیں؟ تو عرض ہے کہ ہمارے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کو زکوٰۃ لینے سے روکنے کا سبب صدیاں ہوئیں ختم ہو چکا ہے۔ استاد محترم نے اپنی کتاب ”میزان” میں اس ضمن میں لکھا ہے:

”دوسری یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے اور اپنے خاندان کے لوگوں کے لیے زکوٰۃ کے مال میں سے کچھ لینے کی ممانعت فرمائی تو اِس کی وجہ ہمارے نزدیک یہ تھی کہ اموال فے میں سے ایک حصہ آپ کی اور آپ کے اعزہ و اقربا کی ضرورتوں کے لیے مقرر کر دیا گیا تھا۔ یہ حصہ بعد میں بھی ایک عرصے تک باقی رہا۔ لیکن اِس طرح کا اہتمام، ظاہر ہے کہ ہمیشہ کے لیے نہ ہو سکتا ہے اور نہ اُسے کرنے کی ضرورت ہے ۔ لہٰذا بنی ہاشم کے فقراومساکین کی ضرورتیں بھی زکوٰۃ کے اموال سے اب بغیر کسی تردد کے پور ی کی جا سکتی ہیں۔” (353)

قیامت کے روز ماں کے نام سے پکارے جانے کا معاملہ اگر یہ خبر درست ہے تو ہر انسان سے متعلق ہے اور قیامت کے ساتھ خاص ہے۔ اس سے دنیا کے معاملات میں استنباط کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

آپ کا یہ خیال درست ہے کہ ہمارے ہاں خاندان باپ کی نسبت سے طے ہوتا ہے۔ یہ ایک کلچرل مسئلہ ہے۔ اسلام نہ اسے درست قرار دیتا ہے اور نہ غلط۔

مجیب: Talib Mohsin

اشاعت اول: 2015-08-03

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading