شب برات اور قرآن

34

سوال

شب برات کے بارے ميں ميرا یہ احساس ہے کہ اس کی کوئی دینی حیثیت نہیں ہے اور جو کچھ اس کے حوالے سے بیان کیا جاتا ہے وہ در اصل لیلۃ القدر ہی سے متعلق ہے۔ از راہ کرم سورۂ دخان اور سورۂ قدر کی آیات کی روشنی میں مفصل جواب دیجیے۔

جواب

لیلۃ القدر اور شب برات کے بارے ميں آپ کا احساس بالکل درست ہے۔ قرآن مجيد ميں لیلۃ القدر ہي کا ذکر ہے۔ سورۂ دخان اور سورۂ قدر ميں ايک ہي رات کے بارے ميں بحث کي گئي ہے۔ ان دو الگ راتوں کا کوئي تصور قرآن و سنت سے پايۂ ثبوت کو نہيں پہنچتا۔ ايک بات بر سبيل تذکرہ عرض کر دوں کہ شب برات در اصل لیلۃ القدر ہي کا فصيح فارسي ترجمہ ہے۔ برات کے معني مقدر اور نصيب ہي کے ہيں۔ علامہ اقبال نے اپنی نظم مسجد قرطبہ ميں اس لفظ کو اسي معني ميں استعمال کيا ہے:

تو ہو اگر کم عيار ، ميں ہوں اگر کم عيار موت ہے تيری برات ، موت ہے ميری برات

يعني ہوا يہ ہو گا کہ کسي عالم نے لیلۃ القدر کا فارسي ميں نہايت عمدہ ترجمہ شب برات کيا ، اور بعد ميں وہ ايك الگ رات کے نام سے غلط طور پر مشہور ہو گيا اور لیلۃ القدر الگ سے۔ ذيل ميں ہم دونوں سورتوں کے متعلقہ حصوں پرايک نظر ڈال ليتے ہيں تا کہ جو تفصيل آپ نے طلب کي ہے وہ ميسر ہو جائے:
سورۂ دخان ميں لیلۃ القدر کے بارے ميں کلام اس طرح سے وارد ہے:
سورۂ دخان
1. حم یہ سورۂ حم ہے۔
2. وَالْكِتَابِ الْمُبِينِ اس کتاب روشن کي قسم۔
3. إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ
کہ ہم نے اس کتاب کو مبارک رات ميں نازل فرمايا۔ ہم تو رستہ دکھانے والے ہيں۔
4. فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ اسي رات ميں تمام حکمت کے کام فيصل کيے جاتے ہيں۔
5. أَمْرًا مِّنْ عِندِنَا إِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ (يعني) ہمارے ہاں سے حکم ہو کر۔ بيشک ہم ہي بھيجتے ہيں۔
سورۂ قدر1. إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ہم نے اس( قرآن)کو شب قدر ميں نازل کيا۔
2. وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ اور تمہيں کيا معلوم کہ شب قدر کيا ہے؟
3. لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ شب قدر ہزار مہينے سے بہتر ہے۔
4. تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ
اس ميں روح (الامين) اور فرشتے ہر کام کے (انتظام کے) ليے اپنے پروردگار کے حکم سے اترتے ہيں۔
5. سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ يہ( رات) طلوع صبح تک (امان اور) سلامتي ہے۔
سورۂ دخان کي پہلي پانچ آيات ميں درج ذيل باتيں معلوم ہوتي ہيں ، جو ٹھيک وہي ہيں جو سورۂ قدر سے معلوم ہوتي ہيں:
1۔ اس رات ميں قرآن نازل ہوا۔ (دخان آيات2 ۔3 ، قدر آيت1)
2۔ يہ رات خير و برکت والي ہے۔ (دخان آيت3 اور قدر آيت3)
3۔ اس ميں اللہ کے امر متعين ہوتے ہيں۔ (دخان آيت4 اور قدر ميں لیلۃ القدر کا نام اس پر دلالت کرتا ہے)
4۔ اس ميں اللہ کا امر نازل ہوتا ہے۔ (دخان آيت4 ۔5 ، قدر آيت4 ۔5)۔ دخان ميں مرسلين کا لفظ ہے اور قدر ميں اس کي تفصيل ہے کہ يہ مرسلين والا معاملہ کيسے ہوتا ہے۔
5۔ دونوں جگہ لیلۃ کا لفظ واحد آيا ہے يعني ايک ہي رات ميں۔ اگر دخان اور قدر ميں الگ الگ راتيں ہوتيں تو پھر لازم تھا کہ لفظ في ليلتين (دو راتوں ميں) اختيار کيا جاتا۔ وگرنہ يہ صريح تضاد ہے جو قرآن ميں نہيں ہو سکتا۔
6۔ دونوں ميں أنزلناہ ہي استعمال ہوا ہے اور دونوں ميں فعل کي نسبت اللہ کي طرف ہے۔ اگر يہ ہوتا کہ ايک ميں اللہ تعالي يہ کہتے کہ ہم نے اس کو لیلۃ القدر ميں نازل کيا اور دخان ميں يہ ہوتا کہ فرشتے نبي صلي اللہ عليہ وسلم کے پاس لیلۃ مبارکہ ميں لے کر پہنچے تو يقينا الگ الگ راتيں مراد ہو سکتي تھيں۔ ليکن اب ايسا نہيں ہو سکتا اس ليے کہ دونوں کے بارے ميں ايک ہي بات کہي جا رہي ہے کہ ہم نے اسے نازل کيا ہے ايک رات ميں جو قدر والي ہے يا برکت والي ہے۔
سورۂ دخان اور سورۂ قدر ميں جو چيزيں مختلف ہيں وہ ذيل ميں ہيں:
1۔ سورۂ قدر ميں اس رات کا نام لیلۃ القدر آيا ہے اور سورۂ دخان ميں لیلۃ المبارکۃ آيا ہے۔ ديکھيے قرآن مجيد کے اسلوب سے ہم واقف ہيں کہ وہ ايک ہي چيز کے مختلف اوصاف کو مختلف جگہوں پر موقع محل کي مناسبت سے لاتا ہے۔ سورۂ قدر ميں اس کا ايک وصف بتايا گيا ہے اور سورۂ دخان ميں وہاں کے مضمون کے لحاظ سے اس کا دوسرا وصف۔ اس کو سمجھنے کے ليے سب سے اچھي مثال قيامت کي ہے۔ قيامت کے بہت سے نام قرآن ميں آئے ہيں۔ وہ دراصل اس دن کے اوصاف ہيں جو موقع محل کي مناسبت سے اللہ تعالي لاتے ہيں۔ مثلا کسي جگہ القيامہ آيا ہے تو کسي جگہ الساعۃ اور کسي جگہ القارعۃ آيا تو کسي جگہ الحاقہ۔ اس سے يہ نتيجہ نکالنا غلط ہے کہ قيامت کے دن بہت سے دن ہيں۔ ہماري زبان ميں قيامت اور آخرت زيادہ مستعمل ہيں۔ جب ہم آخرت يا قيامت کا لفظ بولتے ہيں تو سب بولنے والوں کي مراد ايک ہي دن ہوتا ہے اور سب کے ذہن ميں اسے سن کر اسي ايک دن ہي کا خيال آتا ہے۔
2۔ سورۂ دخان ميں فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ کے الفاظ آئے ہيں ، جبکہ سورۂ قدر ميں يہ الفاظ نہيں آئے۔ قرآن مجيد ہر جگہ ہر بات نہيں کرتا ، بلکہ مختلف موقع پر موقع کے لحاظ ہي سے بات کرتا ہے۔ ايک جگہ ہمارے علم کے ليے مثلا دو باتيں بتاني درست تھيں تو وہاں دو ہي بتائي گئيں اور جہاں تين کي ضرور ت تھي ، وہاں تين ہي بتائي گئيں ہيں۔ سورۂ قدر ميں جن معلومات کي ضرورت تھي وہاں وہي بتائي گئيں اور سورۂ دخان ميں جن کي ضرورت تھي وہاں وہي بتائي گئيں۔ اسي اصول پر باقي تمام معلومات کو سمجھيں جو دونوں سورتوں ميں مختلف ہيں۔ جيسے سورۂ قدر ميں ہزار مہنيوں سے بہتر ہونے کا ذکر ہے اور سورۂ دخان ميں نہيں ہے۔

مجیب: Sajid Hameed

اشاعت اول: 2015-10-04

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading