قراٰن مجید کلام اللہ یا قول رسول؟

22

سوال

میرا سوال یہ ہے کہ علماء قرآن مجید کو کلام اللہ کیوں کہتے ہیں۔ جب کہ قرآن میں اسے واضح طور پر

 “انه لقول رسول کريم” 

کہا گیا ہے؟ برائے مہربانی میری کم علمی درگزر فرمائیں اور اس قول خدا کی وضاحت اپنے نقطہ نظر سے فرمائیں۔

جواب

امید ہے آپ بخیر ہوں گے ۔ آپ کا خیال ہے کہ قرآن کلام جبریل ہے اور اس کے لیے آپ نے سورہ حاقۃ اور سورہ تکویرکی آیت 

‘انه لقول رسول کريم’ (69 : 40)، (81 : 19)

 کا حوالہ دیا ہے ۔ ان دونوں مقامات پر لا ریب رسول کریم سے جبریل علیہ السلام ہی مراد ہیں ۔ پھر آپ نے سورہ توبہ کی اس آیت کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں قرآن مجید کو کلام اللہ بھی کہا گیا ہے ۔ 

حتی يسمع کلام الله (9 : 6)

قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے ایسی آیات بھی آتی ہیں جن میں متکلم نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے ہیں ۔ ایسی آیات بھی آتی ہیں جن میں متکلم جبریل علیہ السلام ہوتے ہیں لیکن بالعموم کلام میں متکلم اللہ تعالی ہی ہوتے ہیں ۔ آپ اللہ تعالی کے لیے غیب کے صیغوں کے استعمال یا جمع متکلم کے صیغوں کے آنے سے یہ طے نہ کریں کہ یہ کلام اللہ نہیں ہے ۔ یہ دونوں اسلوب اللہ تعالی کی علوشان کے باعث اختیار کیے گئے ہیں ۔ ہر زبان میں بلند مرتبت ہستیاں اپنے لیے یہ دونوں صیغے استعمال کرتی ہیں ۔

حضرت جبریل کا کلام اسے اللہ تعالی کے مقرر کردہ معزز ترین ‎پیغام بر کے لانے کی وجہ سے کہا گیا ہے اور مراد یہ واضح کرنا ہے کہ اس کلام کا شیاطین سے کوئی واسطہ نہیں ہے ۔ جب کہ کلام اللہ ہونا اس کی اصل حقیقت ہے ۔

مجیب: Talib Mohsin

اشاعت اول: 2015-07-15

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading