سوال
آیۃ الکرسی کی فضیلت سے متعلق بعض کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ اِس کے پڑھنے والے کو یہ مقام حاصل ہوتا ہے کہ موت کے وقت اُس کی روح خود اللہ تعالٰی قبض کرتے ہیں۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ دین میں اِس فضیلت کا ماخذ کیا ہے اور کیا واقعتاً دین میں آیۃ الکرسی پڑھنے کی یہ فضیلت ثابت ہے؟
جواب
آیۃ الکرسی سے متعلق مذکورہ بالہ فضیلت کا ماخذ ایک روایت ہے جسے خطیب بغدادی (متوفی:463 ھ) نے پانچویں صدی ھجری میں اپنی کتاب ” تاریخ بغداد ” میں (1) حضرت عبد اللہ بن عمرو کی نسبت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک قول کی حیثیت سے نقل کیا ہے،جسے بعد کے دور میں متاخرین نے کُتبِ فضائل میں بھی ذکر کردیا ہے۔
ہمارے نزدیک یہ روایت سند اور متن دونوں ہی اعتبارات سے محلِّ نظر ہے۔ تحقیق سند کے اعتبار سے اِس پر تدبر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک نہایت ضعیف،بلکہ من گھڑت روایت ہے۔ اِس کے سلسلۂ سند میں ایک راوی ‘محمد بن کثیر الفھری’ بقول حافظ ابن حجر ”متروک” ہے۔ إمام ابن عدی فرماتے ہیں کہ محمد بن کثیر باطل مرویات روایت کرتے ہیں اور کسی سند میں اِن کی موجودگی ہی اُس سند کے لیے سب سے بڑا المیہ ہے۔ اِن کے شیخ ‘ابن لھیعۃ’ بھی روایات کے حفظ وضبط میں اچھے نہیں ہیں۔ محدث العصر شیخ ناصر الدین البانی نے بھی اس روایت کو ‘موضوع’ قرار دیا (2) ہے۔
بعض متاخرین نے کتب فضائل میں مذکورہ بالہ روایت کا مضمون چند اضافوں کے ساتھ اس طرح نقل کیا ہے:
”جس شخص نے ہر نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھی تو اُس کی روح خود پروردگار عالم قبض کریں گے اور اُس کا مقام ایسا ہے کہ جیسے انبیا ورسل کے دفاع میں قتال کرتے ہوئے وہ شہید ہوا ہو”۔ (3)۔
علم حدیث کی رو سے یہ بھی ایک غیر ثابت اور ناقابل استدلال ”معضل”(4) روایت ہے،جسے کسی طرح قبول نہیں کیا جاسکتا ہے۔
سند کے علاوہ متن کے لحاظ سے بھی مذکورہ بالہ روایت محلِّ تدبر ہے۔ انسانی ارواح کی توفی اور اُن کے قبض کرنے کے باب میں عمومی خدائی ضابطہ قرآن مجید میں اِس طرح بیان ہوا ہے :
قُلْ يَتَوَفَّاكُم مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُون . (السجدة11:32)
”تم کہہ دو اے پیغمبر کہ موت کا وہ فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے ، وہ تمہیں وفات دیتا (اور اِس طرح تمہاری روح قبض کرلیتا) ہے۔ پھر (قیامت کے دن) تم اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤ گے”۔
انسان کو وفات دینے اور اُس کی روح کو قبض کرنے کی تفصیل قرآن میں متعدد مقامات پر فرشتوں ہی کی وساطت سے بیان ہوئی ہے۔ قرآن مجید میں ظاہر ہے کہ اللہ تعالٰی چاہتے تو اپنے بیان کردہ اِس ضابطے کے بارے میں کوئی استثنا خود قرآن ہی میں بیان کردیتے۔ جبکہ یہ معلوم ہے کہ اِس عمومی قاعدے سے کوئی استثنا یا اُس کا اشارہ قرآن مجید میں کہیں بیاں نہیں ہوا ہے۔ اور غور کیا جائے تو مذکورہ بالہ روایت کا متن اِس عمومی خدائی ضابطے کے باب میں بیانِ استثنا ہے۔ جبکہ کوئی خبر واحد،اگر چہ وہ سندًا صحیح ہی کیوں نہ ہو،علمی طور پر اِس بات کی قطعاً مجاز نہیں ہوسکتی کہ قرآن کے بیان کردہ کسی ضابطے میں کوئی ترمیم واضافہ یا استثنا بیان کردے،چہ جائیکہ اس طرح کی غیر مستند اور ناقابل التفات روایت کو کسی استثنا کے لیے قبول کرلیا جائے۔
اِس تفصیل سے واضح ہوا کہ آیۃ الکرسی کی فضیلت پر مبنی مذکورہ بالہ روایت تحقیقِ سند کے لحاظ سے قابل التفات ہے،نہ تحقیقِ متن کے اعتبار سے قابل قبول ہوسکتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اِس کا استناد قطعاً ثابت نہیں ہے۔ چنانچہ آپ کی نسبت سے اِسے بیان کرنا درست ہے،نہ اِس میں بیان کردہ فضیلت کی دین میں کوئی حیثیت ہے۔
(1) 173/6۔ رقم الحديث : 3228۔ دار الكتب العلمية – بيروت
(2) سلسلة الاحاديث الضعيفة،الألبانی۔ رقم:2014۔ 27/5۔ دار المعارف ، الرياض الطبعة الأولى، 1412هـ / 1992 م۔
(3) کنز العمال،المتقي الهندي۔ رقم:2567۔ 893/1۔ مؤسسة الرسالة – بيروت 1989 م۔
(4) علمِ روایت کی اصطلاح میں ”مُعضَل” اُس روایت کو کہتے ہیں کہ جس کے سلسلۂ سند سے دو یا دو سے بھی زیادہ راوی پے در پے ساقط ہوگئے ہوں۔ محذوف رواۃ کی کثرت کی بنا پر ایسی سند کا ضعف علماے حدیث کے نزدیک ”مُرسل” اور ”مُنقطع” سے بھی شدید تر ہوتا ہے۔ (تيسير مصطلح الحديث،ص:59۔ مرکز الهدی للدراسات۔ الإسکندية۔ 1415 هـ)
مجیب: Muhammad Amir Gazdar
اشاعت اول: 2015-10-17