سوال
اسلام میں ہے کہ کسی کے دین کو برا نہیں کہنا چاہیے۔ میں امریکہ میں تھا وہاں ایک مسلمان سے بات ہوئی تو وہ کہنے لگا کہ پھر محمود غزنوی نے دہلی پر ١٧ بار حملہ کر کے ان کے مندر کیوں لوٹے۔ پھر اس نے کہا کہ حضرت ابراہیم نے بتوں کو توڑ کر بت پرستوں کا دل کیوں دکھایا۔ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اس بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
جواب
دیکھیے،ہر بات کا ایک موقع و محل ہوتا ہے۔ ”برا نہیں کہنا چاہیے” کا مطلب یہ ہے کہ آپ دوسروں کو گالیاں نہ دیں۔ سب و شتم نہ کریں۔ اپنی زبان پر لغویات نہ آنے دیں۔ ایک برا کہنا یہ ہے کہ آپ یہ بتاتے ہیں کہ بت پرستی ایک بہت بڑا گناہ ہے یا یہ چیز شرک ہے تو یہ برا کہنا نہیں ہے، بلکہ یہ حقیقت کا ادراک کرانا ہے۔ یہ بات تو دعوت دینے والا، تبلیغ کرنے والا، تعلیم دینے والا کہے گا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب بت توڑے تو انھوں نے دراصل اپنی بت پرست قوم کو ان کی بیوقوفی اور حماقت پر متنبہ کرنے کے لیے ایک طریقہ اختیار کیا، پھر انھوں نے ایک قبائلی معاشرت میں یہ طریقہ اختیار کیا،قرآنِ مجید میں آپ اس کی تفصیل پڑھیں تو معلوم ہو گا کہ یہ طریقہ بڑا موثر ہو گیا۔ جہاں تک محمود غزنوی کا تعلق ہے تو وہ جو کرتے رہے ہیں، اس کی کوئی ذمہ داری اسلام پر عائد ہوتی ہے اور نہ اس کے لیے اسلام کو مسؤل ٹھیرانا چاہیے۔
مجیب: Javed Ahmad Ghamidi
اشاعت اول: 2015-06-21