برزخ اور عالم برزخ

53

سوال

يہ برزخ کا تصور کيا ہے جس ميں مرنے والوں کو قيامت تک رہنا ہو گا ، جب کہ قرآن مجيد يہ بتاتا ہے کہ مرنے والے زمين ہي ميں جائيں گے اور قيامت کے دن زمين ہي سے نکليں گے ، جيسا کہ قرآن مجيد کي درج ذيل آيت سے ظاہر ہے۔ ارشاد باري ہے

منها خلقناکم وفيها نعيدکم ومنها نخرجکم تارة اخري (طه20: 55)

اسي سے ہم نے تم کو پيدا کيا ہے اور اسي ميں تم کو لوٹائيں گے، اور اسي سے تم کو دوبارہ نکاليں گے۔

اور برزخ سے عالم برزخ کيسے بن گيا اور عالم برزخ سے قبر کيسے بن گئي؟ اور يہ کہ برزخ ميں انسان زندہ ہو گا مگر يہ زندگي جسم کے بغير ہو گي ، اس بات کي دليل قرآن ميں کہاں ہے؟

جواب

اس آيت ميں جو کچھ بيان کيا گيا ہے يہ عين حق ہے۔ يقينا انسان اسي زمين سے پيدا کيا گيا ہے ، وہ مر کر اسي زمين ميں لوٹتا ہے اور قيامت کے دن وہ اسي زمين سے نکالا جائے گا۔ ليکن آپ يہ فرمائيے کہ درج ذيل آيات کا کيا مطلب ہے ، يہ بظاہر اس سے ٹکراتي ہوئي محسوس ہوتي ہيں۔ شھدا کے بارے ميں فرمايا

ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله امواتًا بل احياء عند ربهم يرزقونه فرحين بما آتاهم الله من فضله ويستبشرون بالذين لم يلحقوا بهم من خلفهم الا خوف عليهم ولا هم يحزنون(آل عمران3: 169 ، 170) 

اور جو لوگ اللہ کي راہ ميں قتل ہوئے ہيں ان کو مردہ خيال نہ کرو ، بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہيں ، انھيں روزي مل رہي ہے ، وہ فرحاں و شاداں ہيں اس پر جو اللہ نے اپنے فضل ميں سے ان کو دے رکھا ہے ، اور وہ ان لوگوں کے باب ميں بشارت حاصل کر رہے ہيں ، جو ان کے اخلاف ميں سے اب تک ان سے نہيں ملے کہ ان پر نہ کوئي خوف ہو گا اور نہ وہ غمگين ہوں گے۔

وحاق بآل فرعون سوء العذاب النار يعرضون عليها غدوًا وعشيًا ويوم تقوم الساعة ادخلوا آل فرعون اشد العذاب (المؤمن40: 45 ، 46)

اور فرعون والوں کو برے عذاب نے گھير ليا ، آگ ہے جس پر وہ صبح و شام پيش کيے جاتے ہيں ، اور جس دن قيامت قائم ہو گي ، حکم ہو گا کہ فرعون والوں کو بدترين عذاب ميں داخل کرو۔يعني قيامت سے پہلے اس وقت وہ صبح و شام آگ پر پيش کيے جا رہے ہيں۔

وممن حولکم من الاعراب منافقون ومن اهل المدينة مردوا علي النفاق لا تعلمهم نحن نعلمهم سنعذبهم مرتين ثم يردون الي عذابٍ عظيمٍ (التوبه9: 1

01تم ان (منافقوں) کو نہيں جانتے ، ہم انھيں جانتے ہيں۔ ہم انھيں دو مرتبہ عذاب ديں گے۔ پھر يہ عذاب عظيم کي طرف لوٹا ديے جائيں گے۔

يعني ايک مرتبہ دنيا ميں عذاب ، دوسري مرتبہ عالم برزخ ميں اور پھر اس کے بعد جہنم کا عذاب عظيم۔ چنانچہ ان دونوں آيات سے يہ پتا چلتا ہے کہ کم از کم رسولوں کے مخاطبين کے ساتھ اس عذاب و ثواب کا معاملہ ضرور پيش آتا ہے ، يعني وہ عالم برزخ ميں بھي عذاب ميں گرفتار ہوتے يا نعمتيں پاتے ہيں ، جيسا کہ شہدا کا معاملہ ہے۔ عالم برزخ کيا چيز ہے؟ ارشاد باري ہے

حتي اذا جاء احدهم الموت قال رب ارجعون لعلي اعمل صالحًا فيما ترکت کلا انها کلمة هو قائلها ومن وراءهم برزخ الي يوم يبعثون فاذا نفخ في الصور فلا انساب بينهم يومئذ ولا يتساءلون فمن ثقلت موازينه فاولئك هم المفلحون ومن خفت موازين فاولئك الذين خسروا انفسهم في جهنم خالدون (المؤمنون23: 99- 103

جب ان ميں سے کسي کي موت سر پر آن کھڑي ہو گي تو وہ کہے گا: اے ميرے رب ، مجھے پھر واپس بھيج کہ جو کچھ ميں دنيا ميں چھوڑ آيا ہوں ، اس ميں کچھ نيکي کما لوں ، ہرگز نہيں ، يہ محض ايک بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے اور اب ان سب مرنے والوں کے آگے اس دن تک کے ليے ايک پردہ ہو گا ، جس دن يہ اٹھائے جائيں گے۔ چنانچہ جب صور پھونکا جائے گا ، تو اس دن نہ آپس کا نسب کام آۓ گا اور نہ وہ ايک دوسرے سے مدد کے طالب ہوں گے۔ پس جن کے پلے بھاري ہوں گے ، وہي لوگ فلاح پانے والے ہوں گے اور جن کے پلے ہلکے ہوں گے تو وہي ہيں جنھوں نے اپنے آپ کو گھاٹے ميں ڈالا ، وہ ہميشہ جہنم ميں رہيں گے۔

آپ ديکھ ليجيے کہ درج بالا آيات ميں بہت وضاحت سے يہ بيان کيا گيا ہے کہ موت کے بعد قيامت کا دن آنے تک لوگ برزخ ميں رہيں گے ، (جہاں شہدا اللہ سے نعمتيں پائيں گے اور فرعون والوں پر آگ کا عذاب پيش کيا جاتا ہو گا ، وغيرہ) پھر جب قيامت آۓ گي تو صور پھونکا جائے گا ، پھر اعمال کا وزن ہو گا اور اس کے بعد لوگ اپنے اپنے اعمال کے مطابق جنت يا جہنم ميں جائيں گے۔ چنانچہ قرآن سے يہ صاف ظاہر ہے کہ انسان جب مر کر زمين ميں چلا جاتا ہے ، تو وہاں موت کي اس حالت ميں بھي اس کو کوئي ايسے مراحل پيش آتے ہيں جن کي ہميں يہ خبر دي گئي ہے۔ يہ قرآن کا صريح بيان ہے اور ہميں اس کے انکار کي کيا ضرورت ہے۔ برزخ کا لفظ تو قرآن ميں آيا ہے

حتي اذا جاء احدهم الموت قال رب ارجعون لعلي اعمل صالحًا فيما ترکت کلا انها کلمة هو قائلها ومن وراءهم برزخ الي يوم يبعثون فاذا نفخ في الصور فلا انساب بينهم يومئذ ولا يتساءلون (المؤمنون23: 99 101

جب ان ميں سے کسي کي موت سر پر آن کھڑي ہو گي تو وہ کہے گا: اے ميرے رب ، مجھے پھر واپس بھيج کہ جو کچھ ميں دنيا ميں چھوڑ آيا ہوں ، اس ميں کچھ نيکي کما لوں ، ہرگز نہيں ، يہ محض ايک بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے اور اب ان سب مرنے والوں کے آگے اس دن تک کے ليے ايک پردہ ہو گا ، جس دن يہ اٹھائے جائيں گے۔ چنانچہ جب صور پھونکا جائے گا ، تو اس دن نہ آپس کا نسب کام آۓ گا اور نہ وہ ايک دوسرے سے مدد کے طالب ہوں گے۔

يہ آيات بتاتي ہيں کہ مرنے والے جب مر جاتے ہيں تو پھر قيامت واقع ہونے تک کے ليے ان کے آگے ايک پردہ ہوتا ہے ، جس کي بنا پر دنيا ميں واپس نہيں آ سکتے۔ چنانچہ تب يہ لوگ کہاں ہوتے ہيں ، ظاہر ہے کہ اسي پردے کے پيچھے ہوتے ہيں جو ان کے آگے ہوتا ہے۔ قرآن کا يہ اسلوب واضح طور پر بتا رہا ہے کہ ان کا کوئي وجود ہے جس کے آگے کوئي پردہ ہوتا ہے اور جو وجود اس پردے کے پيچھے ہوتا ہے۔ اسي ما ورائے برزخ کو جہاں يہ وجود موجود ہوتے ہيں، عالم برزخ کہا جاتا ہے۔ يہ سارا کچھ تو قرآن کا بيان ہے جس سے ايک برزخ کا تصور ہمارے سامنے آتا ہے۔ جن مردوں کے بارے ميں قرآن يہ بات کرتا ہے ، يہ وہي مردے ہيں جنھيں ہم زمين ميں قبر بنا کر دفنا ديتے ہيں۔ انسان جس وجود کو قبر ميں رکھتا ہے قرآن اسي کو برزخ کے پيچھے قرار دے رہا ہے۔ اس سے نتيجہ يہ نکلتا ہے کہ صاحب قبر کا برزخ سے کوئي تعلق ہوتا ہے جبھي تو خدا نے اسے برزخ کے پيچھے قرار ديا ہے۔ قبر اپنے ظاہر ميں ہمارے مشاہدے کي چيز ہے ، يہ ہمارے ليے متشابھات ميں سے نہيں ہے ، جب کہ برزخ کا لفظ من جملہ متشابھات ہے۔ متشابھات وہ چيزيں ہوتي ہيں جن کي حقيت سے اس دنيا ميں رہتے ہوئے ہم واقف ہو ہي نہيں سکتے۔ چنانچہ ايسي چيزوں کے حوالے سے ہمارے اوپر يہ لازم ہے کہ ہم قرآن کے الفاظ پر ايمان رکھيں اور اس وقت کا انتظار کريں جب اللہ تعالي ہمارے پر يہ چيزيں کھول دے گا۔ بہرحال ، اس بحث سے اتني بات واضح ہو جاتي ہے کہ برزخ کے ساتھ قبر کا کوئي تعلق ضرور ہوتا ہے۔ ہمارے پاس دو ہي لفظ ہيں: ايک زندگي اور دوسرا موت۔ دنيا ميں انسان زندہ ہوتا ہے اور آخرت ميں بھي وہ اسي طرح زندہ ہو گا ، قرآن و حديث سے يہ بات ثابت ہے۔ دنيا اور آخرت کا درمياني عرصہ جس ميں انسان مردہ ہوتا ہے ، اس عرصے کے بارے ميں قرآن نے ہميں يہ خبر دي ہے کہ اس ميں شہدا تو اپنے رب کے پاس ہوتے ہيں اور وہاں انھيں روزي دي جاتي ہے اور آل فرعون کے حوالے سے بتايا کہ وہ اسي عرصے کے دوران ميں صبح و شام آگ پر پيش کيے جا رہے ہيں ، جيسا کہ درج ذيل آيات اس پر دلالت کرتي ہيں

اور جو لوگ اللہ کي راہ ميں قتل ہوئے ہيں ان کو مردہ خيال نہ کرو ، بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہيں ، انھيں روزي مل رہي ہے ، وہ فرحاں و شاداں ہيں اس پر جو اللہ نے اپنے فضل ميں سے ان کو دے رکھا ہے ، اور وہ ان لوگوں کے باب ميں بشارت حاصل کر رہے ہيں ، جو ان کے اخلاف ميں سے اب تک ان سے نہيں ملے کہ ان پر نہ کوئي خوف ہو گا اور نہ وہ غمگين ہوں گے۔ (آل عمران3: 169 ، 170

اور فرعون والوں کو برے عذاب نے گھير ليا ، آگ ہے جس پر وہ صبح و شام پيش کيے جاتے ہيں ، اور جس دن قيامت قائم ہو گي ، حکم ہو گا فرعون والوں کو بدترين عذاب ميں داخل کرو۔ (المؤمن40: 45 ، 46

اب بتائيے قرآن کي بتائي ہوئي اس خبر کا کيا کريں؟ جو بات سمجھ آتي ہے وہ يہ ہے کہ قرآن کي بيان کردہ سب باتيں سچي ہيں۔ چنانچہ يہ درمياني عرصہ جس ميں انسان مردہ ہوتا ہے اس ميں اس کے ساتھ کوئي معاملہ ضرور پيش آتا ہے ، ليکن مردے کي وہ حالت ہماري دنيوي زندگي سے کچھ ايسي مختلف ہوتي ہے کہ ہم اس کا کوئي شعور ہي نہيں رکھتے ، يہ وہي بات ہے جو قرآن مجيد نے شہدا کے حوالے سے ہميں بتائي ہے ، لہذا ، ہم مردے پر گزرنے والے احوال کو کماحقہ سمجھنے سے قاصر ہيں۔ اگر ہم يہ مان ليں کہ مرنے کے بعد قيامت سے پہلے تک کي حالت کوئي ايسي حالت ہو سکتي جس کا ہميں شعور نہ ہو تو پھر يہ بھي ہو سکتا ہے کہ موت کے زندگي کي ضد ہونے کي حقيقت بھي ہمارے شعور سے بالا ہو۔

مجیب: Muhammad Rafi Mufti

اشاعت اول: 2015-07-11

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading