کسی کے واجب القتل ہونے کا فتوٰی دینا

37

سوال

کچھ دن پہلے جیو ٹی وی کے پروگرام ’’عالم آن لائن‘‘ میں ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی طرف سے یہ بات کہی گئی کہ پاکستان میں موجود قادیانی ’واجب القتل‘ ہیں ۔ اِس طرح کے غیر ذمہ دارانہ بیانات تو ملک میں آگ لگا سکتے ہیں اور اِن سے کسی خیر کے برآمد ہونے کی اُمید نہیں کی جا سکتی۔پاکستان کے لوگ ویسے ہی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں ، ایسے وقت میں اس طرح کے بیانات ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہی کا سبب بنیں گے۔ ابھی اسی طرح کی باتوں کی وجہ سے سندھ میں دو قابل قادیانی ڈاکٹروں کو قتل کیا گیا ہے ۔ اس طرح کی بیان بازیوں کے ذریعے عامر صاحب لوگوں کی کون سی خدمت بجالا رہے ہیں اور اس طرز کے بیانات کی وجہ سے قتل کیے جانے والے اِن ڈاکٹروں کے قتل کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ میرا خیال ہے کہ کوئی بھی شخص انفرادی طور پر اس طرح کے فیصلے کرنے کا مجاز نہیں ہے ، بلکہ اس طرح کے معاملات کا فیصلہ کرنا خدا، اُس کے رسول اور اُس کی کتاب کا کام ہے اور ہمیں اِن معاملات کو اُنہی پر چھوڑ دینا چاہیے ۔ معاشرے کے ہر دردمند اور ذمہ دار شخص کو اس طرح کے بیانات اور قتلوں کی بھرپور مذمت کرنی چاہیے ۔مجھے بتایا جائے کہ کیاکوئی شخص اس طرح اپنے طور پر کسی کے ’واجب القتل‘ ہونے کا فتویٰ دے سکتا ہے ؟

جواب

کسی فرد یا شخص کو سامنے رکھ کر رائے دینا ہمارا طریقہ نہیں ۔ ہم اصول میں اپنی رائے بیان کر دیتے ہیں ۔ کسی غیر مسلم کو اس کے غیر مسلم ہونے کی بنیاد پر قتل نہیں کیا جا سکتا۔ احمدی حضرات کو چونکہ پاکستانی ریاست غیر مسلم قرار دے چکی ہے اس لیے ان کی جان ، مال، آبرو کو وہی تحفظ حاصل ہے جو کسی او رغیر مسلم کو حاصل ہے ۔

ہمار ے اہلِ علم ارتداد کی سزا موت قرار دیتے ہیں ۔گو ہمارا نقطۂ نظر اس معاملے میں مختلف ہے تاہم جو لوگ اس بات کے قائل ہیں وہ بھی کسی فرد کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ اٹھ کر کسی کا قتل کر دے ۔اُن کے نزدیک بھی اقدام کی ذمہ داری ریاست کی ہے نہ کہ فرد کی۔ ایک فرد کو یہ حق کسی صورت میں نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اپنی صوابدید پر کسی دوسرے کی جان کے درپے ہوجائے ۔

مجیب: Rehan Ahmed Yusufi

اشاعت اول: 2016-01-16

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading