سوال
غامدی صاحب کے بقول حضرت امیر معاویہ رضی
اللہ تعالی عنہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے خلاف جنگ موجودہ معلومات
کی بنیاد پر کی۔ اس کے برخلاف تاریخ میں کھلے ثبوت موجود ہیں کہ وہ اقتدار
کی خاطر ایسا کر رہے تھے۔ اگر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا طرز
عمل درست ہے تو مورخین نے ان کے دور کو خلافت راشدہ میں شامل کیوں نہیں
کیا؟
جواب
آپ نے اپنے سوال میں جن کھلے تاریخی ثبوتوں کا ذکر کیاہے ۔ اگر ان کی تفصیل بھی بیان کردیتے تو ہمیں جواب دینے میں سہولت ہوجاتی، باقی جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے خلاف جنگ کیوں کی تو ہمارے نزدیک اس میں کسی صحابی کی بدنیتی کا کوئی دخل نہیں۔ بلکہ اصل قصور اس فسادی گروہ کا تھا جس نے پہلے سیدناعثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کیا اور پھر ایسے حالات پیداکیے کہ سیدناعلی رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے قاتلوں سے قصاص نہ لے سکے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کا قصاص لینا ہی وہ بنیاد تھی جس کی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم میں غلط فہمیاں پھیلیں اور پھر مسلمانوں کی باہمی جنگ وجدل کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
باقی جہاں تک حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے دور حکومت کو خلاف راشدہ کے زمانے میں شامل نہ کیے جانے کا سوال ہے تو ہمارے نزدیک اس کی وجہ سنن ترمذہ کی ایک حسن روایت (رقم2226) ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد خلافت کی مدت تیس سال بیان کی ہے۔یہ وہ مدت ہے جو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے۔
ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ صحابہ کرا م کی نیتوں کے بارے میں کوئی فیصلہ دےنے کا حق ہمیں ہر گز حاصل نہیں ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کے ساتھ کا ساتھ دیا اور قرآن مجید ان کی جگہ جگہ تحسین کرتا ہے۔ اس کے بعد ہمارے لیے یہی بہتر ہے کہ ہم ا ن سب کے بارے میں حسن ظن رکھیں۔
مجیب: Rehan Ahmed Yusufi
اشاعت اول: 2015-11-15