تبليغی جماعت

15

سوال

میں انڈیا سے تعلق رکھتا ہوں اور تبلیغی جماعت سے متعلق ہوں۔ تبليغی جماعت جيسا كہ آپ جانتے ہيں پوری دنیا میں دین پھیلانے کا کام کرتی ہے۔ کچھ لوگ تبليغی جماعت كے مشن اور طريق كار پر اعتراض کرتے ہیں۔ میرا خیال یہ ہے کہ اگر تمام لوگ دین کی دعوت کا راستہ چھوڑ دیں تو اسلام کی طرف ہماری رہنمائی كرنے والا كوئی نہيں رہے گا۔ فرض کریں کہ یہ تبلیغ غلط ہے اور آج تمام لوگ تبلیغ کے لیے ٹی۔وی چینلز کھول کر بیٹھ جائيں۔ يہ تو ہم جانتے ہيں كہ ان ٹی۔وی پروگرامز کے دوران بہت سے ایسے اشتہار چلائے جاتے ہیں جن ميں عورتوں کی بے ہودگی دکھائی جاتی ہے۔ اب جو لوگ پروگرام دیکھ رہے ہیں وہ اشتہار بھی ضرور دیکھیں گے۔ اور ایسی چیزیں دیکھنے سے ان لوگوں کے اندر غلط خیالات پیدا ہوتے ہیں جن کی وجہ سے وہ تنہائی میں کوئی غلط حرکت کرنے کے بارے میں بھی سوچ سکتے ہیں۔ تو جو لوگ تبلیغی جماعت والوں کے خلاف بولتے ہیں وہ پانچ فيصد دین بھی نہیں سیکھ پاتے۔

جو لوگ تبلیغی جماعت کے ساتھ جاتے ہیں وہ عبادات سیکھ لیتے ہیں، وہ اللہ اور اس کے پیغمبر سے عقیدت پيدا كر ليتے ہیں اور قرآن کی کچھ آیات یاد کر لیتے ہیں۔ اگر يہ ٹھيك ہے تو پھر لوگ کس بنا پر کہتے ہیں کہ تبلیغ غلط ہے۔ تبلیغی جماعت والے دوسروں کی طرح انسان ہی ہوتے ہیں ۔ وہ اللہ کے راستے میں نکلتے ہیں تو دین پھیلانے کے لیے، نہ کہ سیر کرنے کے لیے۔ اس لیے وہ جہاں بھی جائیں وہاں کی مسجد میں قیام کرتے ہیں نہ کہ کسی ہوٹل کے کمرے میں۔ برائے مہربانی مجھے بتائیے کہ کیا تبلیغ صحیح ہے یا غلط؟ اگر غلط ہے تو کس بنا پر؟

جواب

تبلیغی جماعت کئی پہلوؤں سے مفید اور کارآمد خدمات انجام دے رہی ہے۔ خاص کر اس پہلو سے تبلیغی جماعت کی خدمات قابلِ تحسین ہیں کہ مسلمانوں کے ان طبقات تک اس نے دین پہنچانے کی کوشش کی ہے جن تک عام حالات میں کسی اور ذریعے سے دین پہنچانا ممکن نہیں ہوتا۔ جو لوگ اس کام میں لگے ہوئے ہیں ہم ان کے اخلاص کے بھی قدردان ہیں کہ وہ اپنے وقت کا ایک حصہ نکال کر دوردراز علاقوں میں سفر کی مشقت اٹھاتے ہیں اور دین سے ناواقف لوگوں تک بنیادی دینی تصورات کا علم پہنچاتے ہیں۔

تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ کئی پہلوؤں سے تبلیغی جماعت کے کام میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے نزدیک اس میں سب سے اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ تبلیغی جماعت جس نصاب کی بنیاد پر عام لوگوں تک دین کی دعوت پہنچاتی ہے اس کا ایک بڑا حصہ ضعیف اور موضوع روایات پر مشتمل ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ قرآن کریم کی شکل میں جو عظیم ترین نعمت ہمیں حاصل ہے اس کو بنیاد بنا کر یہ کام نہیں کیا جارہا۔ ہمارے نزدیک قرآن کریم جب کسی دینی دعوت کی بنیاد نہ ہو تو ایسے دعوتی کام میں افراط و تفریط کا پیدا ہوجانا لازمی ہوجاتا ہے۔

اس موضوع پر اور بھی بہت کچھ کہا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر ان بنیادی باتوں ہی کی اصلاح کرلی جائے تو ہمارے نزدیک بہت کچھ بہتری آسکتی ہے۔ جہاں تک ان لوگوں کا سوال ہے جو ٹی وی چینلز کو ذریعہ بناکر دین کے حوالے سے کام کررہے ہیں تو ان کو بھی غلط نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ جس مسئلے کا آپ نے ذکر کیا ہے یعنی خواتین کا ٹی وی پر آنا۔ ہمارے نزدیک اس کو بنیاد بناکر ٹی وی چینلز پر دینی کام کو ترک کردینے پر اصرار درست نہیں۔ جو لوگ مختلف جگہوں پر جاکر دین کی دعوت و تبلیغ کا کام کرتے ہیں، آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ انہیں بھی راستوں اور بازاروں سے گزرنا ،اور بس اور ریل میں سفر کرنا پڑتا ہے۔ ان تمام جگہوں پر بھی خواتین ايک نامناسب حلیے میں موجود ہوسکتی ہيں اور اکثر ہوا ہی کرتی ہيں۔ آپ خواتیں سے آنکھیں بند کرکے راستوں سے نہیں گزر سکتے۔ آپ کو ہر حال میں اپنی نظر کو بچانا ہوگا۔ لہٰذا جس طرح خواتین کی موجودگی کے باوجود کسی نیک مقصد کی خاطر آپ راستوں اور بازاروں سے گزرنا بند نہیں کردیتے، بالکل اسی طرح اس چیز کو بنیاد بنا کر آپ مطلقاً ٹی وی دیکھنے کی ممانعت نہیں کرسکتے اور نہ ٹی وی کو ذریعہ بناکردینی دعوت پہنچانے کو ممنوع ٹھہرا سکتے ہیں۔

مجیب: Rehan Ahmed Yusufi

اشاعت اول: 2016-01-04

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading