تواتر اور خبر واحد میں فرق

28

سوال

اکثر اوقات دینی لٹریچر میں یہ کہا جاتا
ہے کہ فلاں چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’تواتر ‘‘سے ثابت ہے اور
فلاں بات ’’خبر واحد ‘‘ہے۔ تواتر اور خبر واحد میں کیا فرق ہے اور ان دونوں
اصطلاحات کا کیا مطلب ہے ؟

جواب

یہ دونوں اصطلاحات دین کی نہیں ، بلکہ علم تاریخ کی ہیں ۔ تاریخ میں کسی بھی قسم کی معلومات (Information)کو دوسرے لوگوں اور اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کے بنیادی طور پر دو طریقے استعمال ہوئے ہیں ۔ ان میں سے ایک طریقے کو تواتر اور دوسرے کو خبر واحد کہا جاتا ہے ۔تواتر سے مراد وہ طریقہ ہے جس کے مطابق کسی خبرکو ہر دور میں اتنے زیادہ افراد بیان کرتے ہوں کہ اس کے بارے میں کسی شک و شبہ کی گنجایش نہ رہے ۔ اس کے برعکس خبر واحد وہ طریقہ ہے جس کے مطابق کسی خبر کو ایک دو یا چند افراد بیان کرتے ہوں اور ان کے بیان میں غلطی یا شک و شبہ کی گنجائش باقی رہ جائے ۔

تواترکی مثال یوں پیش کی جا سکتی ہے کہ امریکہ میں گیارہ ستمبر 2001 کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر تباہ ہو گیا۔ یہ واقعہ رونما ہوتے ہی اس کی خبر دنیا بھر کے ٹی وی چینلز، اخبارات اور انٹر نیٹ کے ذریعے دنیا بھر میں پھیل گئی۔ اس واقعے کو ہزاروں افراد نے دیکھا اور بیان کر دیا۔ اس معاملے میں دنیا بھر میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یہ واقعہ رونما ہوا تھا کیونکہ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجایش نہیں ہے ۔ اب سے پندرہ بیس برس کے بعداس واقعے کو دنیا بھر کے اربوں افراد اپنی آنے والی نسل کو سنائیں گے ، اس واقعے کے بارے مضامین لکھے جاتے رہیں گے ، ویڈیو فلمیں دیکھی جاتی رہیں گی اور اس کا تذکرہ ہوتا رہے گا۔ ہمارے بعد والی نسل کے افرادانہی طریقوں سے ان معلومات کو اپنے سے اگلی نسل میں منتقل کریں گے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اب سے کئی صدیاں بعد بھی اس بات میں کوئی شک و شبہ موجود نہیں ہو گاکہ 11 ستمبر 2001 کو نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر جہازوں کے ٹکراؤ سے تباہ ہوگئے تھے ۔ یہ پورا پراسیس تواتر کا عمل کہلاتا ہے ۔

تواتر سے حاصل ہونے والی معلومات حتمی اور قطعی ہوتی ہیں اور ان کے بارے میں کسی شک و شبہے کی کوئی گنجایش نہیں ہوتی۔ چنانچہ ہم لوگ پوری قطعیت کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب سے تقریباً پچپن سال پہلے پاکستان بنا تھا، ڈیڑ ھ سو سال پہلے برصغیرمیں جنگی آزادی ہوئی تھی، چار سو سال پہلے اکبر نام کا ایک بادشاہ ہندوستان پر حکومت کرتا تھا، پانچ سو سال پہلے کولمبس نے امریکہ دریافت کیا، نوسو سال پہلے صلاح الدین ایوبی نے صلیبی جنگیں لڑ ی تھیں ، ساڑ ھے تیرہ سو سال پہلے سانحہ کربلا وقوع پذیر ہوا تھا، ساڑ ھے چودہ سو سال قبل عرب میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تھی اور آپ کے بعد آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس وقت کی مہذب دنیا کا بڑ ا حصہ فتح کر لیا تھا۔یہ وہ معلومات ہیں ، جن کا کوئی ذی عقل اپنے ہوش و حواس میں رہتے ہوئے انکار نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی ان حقائق کا انکار کرتا ہو تو وہ سورج کے روشن ہونے ، چاند کے موجود ہونے اورزمین کے گول ہونے کا بھی انکار کر سکتا ہے ۔
تاریخ میں بہت سی معلومات ہمیں خبر واحد (چند اشخاص کی دی ہوئی خبر)کی صورت میں بھی ملتی ہیں ۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی کا منظر کسی عینی شاہد نے دیکھا۔ اس نے اپنے ذہن میں موجود تفصیلات کو کسی دوسرے تک منتقل کر دیا۔ دوسرے شخص نے ان معلومات کو تیسرے تک ، تیسرے نے چوتھے تک اور چوتھے نے پانچویں شخص تک منتقل کر دیا اور یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ان معلومات میں اس قسم کی باتیں ہو سکتی ہیں کہ اس نے جہازوں کے ٹکرانے سے پہلے کسی شخص کو مشکوک انداز میں اس عمارت سے نکل کر بھاگتے ہوئے دیکھا تھا، سب سے پہلے 79ویں منزل تباہ ہوئی تھی، آگ بجھانے والے لوگ اندر کیسے داخل ہوئے وغیرہ وغیرہ ۔ ان خبروں کے بیان میں لوگوں کے درمیان اختلاف ہو سکتا ہے ۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا تباہ ہونا تو تواتر سے ثابت ہے لیکن اس کی جزوی تفصیلات خبر واحد سے معلوم ہوتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی واقعے کے بارے میں مختلف اخبارات کی خبروں میں جزوی سا فرق پایا جاتا ہے کیونکہ اس کی بنیاد ایک دو انسانوں کے مشاہدے اور یاد رکھنے پر ہوتی ہے ۔

حضور نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیں پورے کا پورا دین تواتر سے منتقل ہوا ہے ۔ یہ دین قرآن اور سنت میں محفوظ ہے ۔ قرآن ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر آج تک امت مسلمہ کے قولی تواتر (یعنی زبانی اور تحریری بیان )سے اور سنت عملی تواتر (امت کے عمل) سے منتقل ہوئی ہے ۔ اس کے علاوہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دین پر جو عمل کیا یا اس کے بارے میں کسی سوال کے جواب میں کوئی وضاحت فرمائی یا کسی معاملے میں اپنی رائے کا اظہار فرمایا، یہ سب امور ہمیں خبر واحد سے حاصل ہوتے ہیں جس کا عظیم مجموعہ حدیث کے ذخیرے کی شکل میں موجود ہے۔

مجیب: Rehan Ahmed Yusufi

اشاعت اول: 2016-01-14

تعاون

ہمیں فالو کریں

تازہ ترین

ماہنامہ اشراق لاہور کا مطالعہ کریں

خبرنامہ کو سبسکرائب کریں

اپنا ای میل پر کریں اور بٹن کو دبائیں

By subscribing you agree with our terms and conditions

Loading